پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما فیصل جاوید کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
سماعت جسٹس وقار احمد اور جسٹس ثابت اللّٰہ خان نے کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فیصل جاوید عمرے کے لیے جانا چاہتے ہیں، آج ان کی فلائٹ ہے، ایف آئی آر کی بنیاد پر کسی کو بیرونِ ملک جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔
عدالت میں موجود ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست گزار کو 2 ماہ پہلے مقدمات کی تفصیلات فراہم کیں، درخواست گزار ان کیسز میں پیش نہیں ہوئے، درخواست گزار کا نام پی این آئی ایل سے نکالا گیا، جن کیسز میں پیش نہیں ہوئے، ان کی بنیاد پر نام پاسپورٹ کنٹرل لسٹ میں ڈالا گیا، درخواست گزار ان کیسز میں مفرور ہیں، ان کے وارنٹِ گرفتاری جاری کیے جا چکے ہے، ہم نے عدالتی احکامات مانے، گرفتار کرنا ہوتا تو ایئر پورٹ سے کر لیتے۔
جسٹس وقار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل! آپ نے بھی تو ٹوکری کے حساب سے مقدمات بنائے ہیں۔
درخواست گزار فیصل جاوید نے عدالت میں اپنے مؤقف میں کہا کہ مجھے اس عدالت نے حفاظتی ضمانت دی ہے، عمرے کی ادائیگی کے لیے جانا چاہتا ہوں، آج روانگی ہے، ٹکٹ لیا ہوا ہے، جو مقدمات تھے ان میں بری ہو چکا ہوں۔
اس پر جسٹس وقار احمد نے کہا کہ آپ بھی آخری وقت میں عدالت آئے ہیں، کیسز تھے تو پہلے آنا چاہیے تھا۔
فیصل جاوید نے کہا کہ حکومت نے 3 دن پہلے ہی تفصیلات فراہم کی ہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں فیصل جاوید سے سوال کیا کہ ہم نے تفصیلات 2 ماہ پہلے فراہم کی تھیں، یہ کیوں پیش نہیں ہوئے؟
نمائندہ ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ پی سی ایل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن جبکہ ای سی ایل کابینہ ڈویژن دیکھتی ہے۔
بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے حکومت کو 17 مارچ تک مکمل رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔