یہ مشرف کا دور تھا ۔ دہشت گردی عروج پر تھی۔ آئے دن خودکش بم دھماکوں کے سانحے برپا ہوتے اور خوف اور موت کے سنپولیے شہر کے راستوں پر سرسراتے پھرتے۔ خود کش دھماکوں کی دہشت گردی سے لہو لہان ایسا ہی کوئی دن تھا۔ ریڈیو پر ایک پروگرام کے سلسلے میں منو بھائی کے ساتھ شریک تھی گفتگو کے دوران انہوں نے منیر نیازی کا ایک شعر سنایا، کہا کہ منیر نیازی نے نہ جانے کس خیال میں یہ شعر کہا تھا لیکن آج دہشت گردی کے ماحول میں جس طرح لوگوں کے اندر خوف کے سنپولیے سرسراتے پھرتے ہیں۔ شعر اس ماحول کی مکمل عکاسی کرتا ہے ’’اک تیز رعد جیسی صدا سارے شہر میں ...لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے‘‘۔ یہی دہشت گردوں کا ایجنڈا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی صرف بلوچستان تک محدود نہیں ہے اس کا مقصد پاکستان کے معاشی، سیاسی اور سیکورٹی ڈھانچے کو عدم استحکام سے دوچار کرکے ریاست پاکستان کی رٹ کو چیلنج کرنا ہے اور شہریوں کے اندر خوف اور بے یقینی کی فضا پیدا کرنی ہے اور دہشت گرد اس میں کامیاب ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں ہوں یا عالمی دہشت گرد یہ عناصر بڑے منظم طریقے سے یہ کام کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں پاکستان کی سیاست اور ریاست کی سیاسی، سفارتی اور فوجی حکمت عملی کیا رہی۔ بلوچستان کے حوالے سے اس بات کو مان لینا چاہیے کہ وہاں سے آنے والی خبروں پر کئی طرح کے فلٹر لگے ہوتے ہیں تمام خبریں اسی سچائی اور حقانیت کے ساتھ سامنے نہیں آتیں بہت سی خبریں تو کبھی سامنے ہی نہیں آتیں ۔پہلے بھی ٹرینوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ دہشت گرد ریلوے ٹریک کو تباہ کر دیتے ہیں۔ چیک پوسٹوں پر بم حملے کرتے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی تاریخ شاہد ہے کہ یہاں مکمل امن اور استحکام کا دور شاید ہی کبھی آیاہے۔ جعفر ایکسپریس پر ہونے والا حملہ بلوچستان میں کوئی نیا حملہ نہیں گزشتہ برس جنوری کی 29 اور 30 تاریخ کو بھی بلوچستان میں ٹرین پر حملہ ہوا تھا اور یہ وہاںدہشت گردوں کی عام سرگرمی ہے کہ ریلوے ٹریک تباہ کر دیا ،ٹرین پر حملہ کر دیا مگر400 مسافروں سے بھری ہوئی ٹرین کو ہائی جیک کرنے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ بلوچستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن اور یہاں بلوچوں کی سماجی اور معاشی حقوق سے محرومی اور غربت کے امتزاج نےخطے کو عالمی اسٹیک ہولڈرزکیلئے آسان ٹارگٹ بنا رکھا ہے کہ وہ اپنے مفادات کیلئے بلوچوں کی سرزمین کو وار زون بنائے رکھیں۔ جعفر ایکسپریس کی منظم ہائی جیکنگ کے حوالے سے بھارت اور افغانستان کا کردار بہت کھل کر سامنے آیا ہے بھارت کے مفادات اس سے وابستہ ہیں کہ بلوچستان میں معاشی خوشحالی نہ آئے، سی پیک گوادر میں ہونے والی معاشی سرگرمیاں دہشت گردی کے سائے تلے دم توڑ جائیں۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ اس خطے میں آگ اور خون کا یہ کھیل جاری رہے۔ بلوچستان سے جڑے بہت سارے ایشوز ایسے ہیں جس پر کبھی کھل کر بات نہیں کی جاتی۔
بلوچستان کی سرزمین کو پنجابیوں کیلئے ناقابل قبول بنایا گیا یہ دس پندرہ سال پہلے کی بات ہے یہاں سے پنجابی خاندانوں کو دہائیوں سے بسے بسائے اپنے گھر اور بنے بنائے کاروبار چھوڑ کر بوجھل دل کے ساتھ بلوچستان کو خیر باد کہنا پڑا۔ بلوچستان کے زمینی راستوں سے جانے والے پنجابی مسافروں پر آج بھی موت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ غریب پنجابی مزدوروں کو شناختی کارڈ دیکھ کرموت کے گھاٹ اتار دینے کے واقعات بلوچستان میں اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ریاست کے اسٹیک ہولڈرز کو پوری اعلیٰ ظرفی کے ساتھ ایک کھلا مکالمہ کرنا چاہیے تاکہ معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ناراض بلوچوں کو گلے سے لگانا چاہیے۔ سب ناراض بلوچ نوجوان دہشت گرد نہیں ان کی محرومیوں کو دور کرنا چاہیے۔ الیکشن شفاف اور رگنگ سے پاک ہوں نمائندگی ان کو ملے جنہیں بلوچستان کے باسی منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں غربت کو دور کرنے کیلئے تعلیم اور ہنر مندی کے اداروں کا جال بچھا دینا چاہیے تاکہ روزگار پیدا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ کوئٹہ کے لینڈ اسکیپ سے لطف اندوز ہونا ہے تو کوئٹہ کیلئے سب سے بہترین سفر ٹرین کا ہے یہ ان لوگوں کیلئے جو فطرت کے مظاہر میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مادی سہولتوں سے باہر نکل کر فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہتے ہیں۔ دنیا کے حسین ترین اور حیرت انگیز ریلوے ٹریک پر سفر کرنے والے مسافرحسین خواب آنکھوں میں سجائے منزل پر پہنچنے کی خوشی سے جڑی نہ جانے کون کون سی سوچوں میں گم ہوں گےکہ ان کی زندگیاں منزل سے پہلے موت اور خوف سے دوچار ہو گئیں۔ آنکھوں کے سامنے لہراتی ہوئی موت کے اس احساس کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے جب دہشت گردوں نے خواتین اور بچوں کو ٹرین سے اتار کر36 گھنٹوں تک موت اور خوف کے تاریک سائے میں رکھا۔ اس عرصے میں ان پاکستانی مسافروں پر کیا گزری۔ مسافروں میں نوجوان بھی تھے بچے بھی اور خواتین بھی۔ اس حادثے نے ان کی نفسیات کو کیسے تہ و بالا کیا۔ شاید آنے والے وقت میں ان مسافروں میں سے کوئی اس دل خراش سانحے کے بارے میں بات کرے۔ وہ جن کے پیارے تاریک راستوں میں مارے گئے اوروہ جو زرد چہروں کے ساتھ نڈھال گھروں کو واپس آئے، ان کے زخم سے لہو رستا رہے گا۔ امید ہے کہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز بھی ٹرین ہائی جیکنگ کے سانحے کو اتنا ہی حساس اور سنجیدہ لیں گےاور دہشت گردی کے اس ناسور کی جڑوں تک پہنچ کر اسے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔