سوال: تراویح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ واجب ہے؟ کیا یہ سنت مؤکدہ ہے یا غیرمؤکدہ ہے؟ کیا یہ فرض علیٰ الکفایہ ہے؟ فرض علیٰ الکفایہ کا یہ مطلب میرے ذہن میں ہے، جیسے نماز جنازہ ہے۔
اگر تراویح نہ پڑھی تو اس کے چھوڑنے کا گناہ کس حیثیت میں ہو گا؟ یعنی اوپر جو حیثیات ذکر کی گئی ہیں، ان کے اعتبار سے؟
جواب: تراویح کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے سنتِ موکدہ ہے، بلا عذر اسے چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔
خلفائے راشدینؓ، صحابۂ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعین، آئمہ مجتہدین اور سلف صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے اور مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنتِ کفایہ ہے، یعنی اگر محلے کے چند افراد اس سنت کو جماعت کے ساتھ ادا کر لیں تو سب کا ذمہ فارغ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے، جو مرد انفرادی تراویح پڑھے گا تو اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے محروم رہے گا اور عورتوں کے لیے جماعت سنتِ مؤکدہ کفایہ نہیں ہے بلکہ عورتوں کے لیے گھر میں تنہا پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔