• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریکارڈ شدہ تاریخ میں پہلا اور سب سے زیادہ دردناک معاشی بائیکاٹ ایسا نہیں تھا جو بادشاہوں کے فرمانوں یا سلطنتوں کی حکمت عملیوں کے ذریعے کیا گیا ہو۔ یہ مکہ کی گلیوں میں ہونے والا ایک اعلان تھا، جو سرداران قریش نے نبی اکرم ﷺ اور ان کے پیروکاروں کے خلاف جاری کیا تھاکہ اسلام کے پیغام کو قبول کرنے والوں سے نہ خرید و فروخت ہوگی، نہ شادی کی جا سکے گی، نہ کوئی ان کے ساتھ تجارت کرے گا اورنہ ہی انہیں کسی قسم کی مدد دی جاسکے گی۔ اس معاشی بائیکاٹ سےمسلمان تین سال شعب ِابی طالب کی گھاٹی میں بھوک، پیاس اور شدید تنگدستی کا شکار رہے، یہاں تک کہ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے ۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب مکہ کے چند نرم دل افراد نے قریش کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ آغاز ِ اسلام کا ایک تاریخی واقعہ ہے جسے مسلمان ہمیشہ یاد رکھتے ہیں مگر تاریخ کےعظیم الشان تھیٹر میں، جبر اپنے اصل لباس میں شاذ و نادر ہی سامنے آتا ہے۔ یہ ماسک پہنتا ہے، نئے نام اپناتا ہے،نئے نظام کی سیاہی کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔جس کی واضح ترین مثال اس وقت بھارت میں مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ ہے۔ جس کی انتہا یہ ہے کہ خود بھارتی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کر دیا ہے تمام دکانداروں کو اپنے نام نمایاں طور پر ظاہر کرنا چاہئیں۔ دکان کے باہر دکان کے مالک کے نام کی تختی لگی ہونی چاہئے کہ پتہ چلے وہ ہندو یا مسلمان ۔بظاہر یہ ایک انتظامی اقدام لگتا ہے مگر یہ ایک خوفناک چال ہے۔ حکم دینے والے جانتے تھے کہ بھارت جیسے متعصب معاشرہ میں اسکے کیا نتائج برآمد ہونگے۔ سو اب یہ نام کی تختیاں محض سائن بورڈ نہیں، علیحدگی کے برانڈ بن گئے ہیں۔ ایک خاموش سرگوشی مختلف زبانوں میں بدلتی ہوئی پورے ہندو مت میں پھیل گئی کہ مسلمانوں کوشناخت کرو، انہیں الگ تھلگ کرواور ختم کر دو۔ اب یہ ظلم کی تحریک کسی ایک علاقے تک محدود نہیں، پورے ہندوستان میں پھیل چکی ہے۔ اس ریاستی اقدام نے ہندو انتہاپسند وں کے حوصلے بہت بلند کر دئیے ہیں۔ اب انہیں مسلمانوں کو قتل کرنےیا ان کی دکانوں، مکانوں کو آگ لگانے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ ان کے سفاک معاشی بائیکاٹ سے مسلم نام کی تختی آویزاں کرنے والی ہر دکان آسیب زدہ ویرانی میں بدل گئی ہے۔ برسوں سے کامیابی کے ساتھ چلنے والے کاروبار راتوں رات تباہ ہوتے گئے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت سرکار کے اعمال سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ اس ظلم کے پیچھے حاکم ِ وقت کا کوئی پوشیدہ فرمان موجود ہے۔ نام کی تختی، پہلا ہتھیار تھا، دوسرا ہتھیار اس سے بھی زیادہ خوفناک ثابت ہوا۔ وہ جھوٹ کا واویلا تھا: ’تھوک جہاد‘ کا افسانہ پھیلا گیا۔ مسلمان دکانداروں پر یہ گھناؤنا الزام لگایا گیا کہ وہ کھانے پر تھوکتے ہیں۔ اسے آلودہ کرتے ہیں اس لئے ان کی دکانوں سے کوئی ہندو سودا سلف نہ خریدے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا، کوئی گواہ نہیں تھا مگر جھوٹ اسقدر اور اتنی شدت سے بولا گیا کہ عام غیر متعصب ہندوئوں کو بھی سچ لگنے لگا۔ سو کاروبار نفرت کے بوجھ تلے تباہ ہوتے گئے۔ اس وقت ہزاروں کاروباروں کی سچی کہانیاں ناانصافی کے خاموش قبرستانوں میں دفن ہو چکی ہیں، کبھی کسی اخبار نے کوئی سرخی نہیں لگائی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ کبھی کسی عدالت میں یہ بحث نہیں ہو سکی کہ یہ کیا ہو رہاہے۔ یقیناً مسلمان اکثریتی علاقوں میں سمٹتے چلے جائیں گے۔ یہ نفرت کی آگ جس میں اس وقت مسلمان جل رہے ہیں ،یہ آنے والے کل میں پورے ہندوستان کی چتا بھی بن جائے گی۔ اس معاشی بائیکاٹ کا آغاز دوہزار بیس سے شروع ہوا۔ دہلی فسادات کے بعد ہندو انتہا پسند گروہوں نے یہ مہم چلائی کہ مسلمانوں سے کسی قسم کا کاروبار نہ کیا جائے۔ مسلمانوں کی دکانوں اور کاروباروں کو جلایا گیا، اور انہیں دوبارہ کھولنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سو بہت سے مسلم دکانداروں کو مالی نقصان کے باعث مستقل طور پر نقل مکانی کرنا پڑی۔ دو ہزار بائیس میں ہریانہ کے کئی شہروں میں بی جے پی کے حمایت یافتہ ہندو انتہا پسند گروہوں نے مسلم گوشت فروشوں پر حملے کیے اور ان کی دکانیں زبردستی بند کروا دیں۔ کئی جگہوں پر ہندو تاجروں کو ترغیب دی گئی کہ وہ مسلمانوں سے گوشت نہ خریدیں، جس سے ان کی معیشت پر شدید اثر پڑا۔ دو ہزار بیس سے دو ہزار تیئس تک مسلم فوڈ وینڈرز اور ریستورانوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی کہ یہ کھانے میں تھوک ملاتے ہیں۔ اسی عرصے میں گجرات میں ہندو قوم پرست تنظیموں، خاص طور پر بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد، نے مسلم سبزی فروشوں کے خلاف منظم مہم چلائی۔ ہندوؤں کو تلقین کی گئی کہ وہ ترکاری صرف ہندوئوں سے خریدیں۔ اس بائیکاٹ کے نتیجے میں پورے بھارت میں مسلم سبزی فروشوں کا روزگار ختم ہو گیا اور دو ہزار چوبیس میں اس حکم نامے نے معاشی بائیکاٹ کو اپنے عروج پہنچا دیا کہ دکانوں کے باہر ناموں کی تختیاں ضروری ہیں۔ یہ ریاستی پالیسیوں اور انتہا پسند تنظیموں کے منظم اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کو کاروبار اور معیشت سے بے دخل کرنے کی ایک خوفناک کوشش ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستانی مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اپنے مظلوم انڈین مسلمانوں کی کیسے مدد کرنی چاہئے۔ میرے نزدیک تو ہمیں چاہئے کہ پوری امتِ مسلمہ کو اس طرف متوجہ کریں تاکہ بھارتی حکومت پردبائو ڈالا جا سکے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے۔ اس خوفناک معاشی بائیکاٹ پر خاموشی ہماری مجرمانہ غفلت ہو گی۔ مجھے لگ رہا ہےکہ آغاز ِ اسلام میں عرب میں بت پرستوں کی مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی تاریخ بت کدہ ہند میں پھر دہرائی جارہی ہے۔

تازہ ترین