• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کھنڈر بنے شہروں، راکھ سے اٹی ہوئی بے آباد گلیوں، اپنوں کی جدائی کے زخم دل میں سنبھالے ایمان اور استقامت کی تصویر بنے فلسطینیوں نے 2025کے رمضان کو اس عالم میں خوش آمدید کہاکہ سحر اور افطار میں کھانے کو کم میسر ہے فاقے ہیں مگر دل ایمان سے روشن ہیں زبان پر شکر الحمدللہ ہے ۔ گزشتہ برس رمضان اور عید فلسطین کی سرزمین پر اس عالم میں آئی کہ اہل فلسطین پر مسلسل گولہ بارود برستا رہا۔ دنیا بھر میں ہونے والے جنگ مخالف احتجاجی مظاہروں کے باوجود صہیونی طاقتوں نے ظلم ووحشت کا یہ کھیل نہ روکا اور جنگ میں ذرہ برابر توقف نہ آیا۔ اس برس مگر مسلسل کئی مہینوں کی وحشت ناک بمباری اور جنگ کے بعد جنوری میں ایک جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا اس سے کچھ اطمینان ہوا، غزہ میں لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے لگے یہ بھی بہت دل خراش مناظر تھے۔ بسے بسائے گھروں کی جگہ تباہ شدہ کھنڈر ان کے منتظر تھے۔ انسانیت پر یقین رکھنے والے دنیا بھر کے ہر مذہب و مسلک کے لوگوں نے جنگ بندی پر اطمینان کا سانس لیا، اس وقت تک 48 ہزار سے زائد فلسطینی جنگ کا لقمہ بن چکے تھے۔ اہل غزہ روحانی طور پر بہت طاقتور ہیں دنیا کو امید تھی کہ جنگ سے لٹے پٹے یہ شہر گلی کوچے اہلِ غزہ اپنی استقامت اور ایمان کی طاقت پر پھر سے آباد کر لیں گے۔اور ان صاحب ایمان لوگوں پر اسی تباہ حالی کسمپرسی کے عالم میں سحر اور افطار کی گھڑیاں گزرنے لگیں۔ لیکن رمضان المبارک میں ایک دفعہ پھر اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے کو توڑ کر غزہ کوپھر سے وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہم تک اس وحشت کا عکس ویڈیو اور تصویروں کی صورت پہنچتا ہے اور ہم جیسے کمزور ایمان والے لوگ تو ان کو آنکھ بھر کر دیکھ بھی نہیں سکتے کہ گنہگار نظر کو حجاب آتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اب بہت سارے آنسو بہانے اور دل چیر دینے والی بے بسی سہتے سہتے کبھی کبھی احساس دیوار کی صورت بے حس اور خاموش محسوس ہونے لگتے ہیں اور پھر کئی دنوں کی یہ بے حسی ایک ایسی تکلیف دہ کیفیت کی صورت ٹوٹتی ہے کہ آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں جی چاہتا ہے کہ پورا وجود نالہ و فغاں میں ڈھل کے آسمانوں کا سینہ چیر جائے۔ ایمان کی کمزور ترین سطح پر زندگی گزارنے والے ہم مصلحت پسند مسلمان اہل فلسطین کے ہمالہ سے اونچے ایمان کے سامنے بالکل ایک پرِ کاہ کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ ہماری محدود عقلوں کو عشق کے یہ ضابطے سمجھ نہیں آتےکہ ہم تو زندگی کے چھوٹے چھوٹے مفادات پر ایمان بیچنے والے لوگ ہیں۔ اپنے سماج کو دیکھوں تو حیرت ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی کیسی کیسی خباثتیں باہر نکل آتی ہیں، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا گھناؤنا کاروبار کر کے برادر اسلامی اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی زندگیوں کو اجیرن کرتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تمام حکومتی دعووں کے باوجود بازاروں میں اشیاء کے نرخ کنٹرول نہیںہیں ایک طرف یہ حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان ہے تو دوسری طرف ایک فرد کے اپنے ضمیر کا امتحان بھی ہے، معاشرے کی بھلائی میں کچھ کام تو فرد کا اپنا بھی ہے۔ ہماری عبادتیں بھی ساری دکھاوے کی ہیں مجال ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں معاشرے کی بہبود کے حوالے سے کوئی ایک بھی عملی مثال ہم قائم کر سکیں۔ ایسا لگتا ہےمنافقین کی اعلیٰ ترین نسلیںپاکستان میں آباد ہیں۔ ہر چیز دکھاوے کی، صدقہ خیرات کرتے وقت بھی تصویریں کھینچ کر سوشل میڈیا پر لگانا نہیں بھولتے۔استثنیٰ بے شک موجود ہے لیکن مجموعی طور پر معاشرے کی یہی صورتحال ہے۔اہل قدس انبیاء کی سرزمین کے وارث ہیں یقیناً ان کے ڈی این اے، ہمارے ڈی این اے سے مختلف ہیں ان کی رگوں میں دوڑنے والا لہو انبیا کی وراثت کا امین ہے ۔ یہ اہل فلسطین وہ سابقون ہیں جن کا تذکرہ کتاب اللہ میں ہے جو اپنے مال اور جان اللہ کی راہ میںکسی تامل کے بغیر قربان کرتے ہیں۔ ان کی استقامت بلا شبہ حیران کرتی ہے۔ الجزیرہ کی ویب سائٹ پر غزہ کی رہائشی نوجوان فلسطینی لکھاری کا ایک آرٹیکل نظر سے گزرا،جس میں 2025 میں جنگ سے تباہ حال ملبے پر گزارے جانے والے رمضان کا تذکرہ ہے پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔وہ لکھتی ہیں کہ ہم اپنے گھروں اور اپنے پیاروں سے محروم ہو چکے ہیں لیکن اللہ پر ہمارا ایمان اس آزمائش میں مزید مضبوط ہوا ہے۔امریکہ کی سربراہی میں صہیونی طاقتیں رمضان المبارک کے مہینے میں بھی غزہ کے شہریوں تک امدادی سامان لے جانے نہیں دے رہیں۔ مصنفہ کبھی امن کے وقفوں میں آنے والے دنوں کی عیدیں اور رمضان کا تذکرہ کرتی ہیں جب فلسطینی اپنے تمام تر دکھوں اور مسائل کے باوجود خوشی کے لمحوں میں مسکراتے تھے اور ان لمحوں سے خوشیاں کشید کرتے تھے مکمل امن کا ماحول تو فلسطین کی سرزمین پر کبھی نہیں رہا۔ ایک طرف پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہم بے بس مسلمانوں کو اہل غزہ کا دکھ تڑپاتا ہے تو دوسری طرف اپنے ہی ملک میں بلوچستان اور کے پی میں خوں ریز دہشت گردی کی تازہ اور توانا لہر دل دہلائے دیتی ہے اس پر اہل سیاست کی مفاد پرستانہ کج روی کوتاہ بینی اور عاقبت نا اندیشی پر افسوس ہوتا ہے۔ حالات کےنازک موڑ پر بانی پی ٹی آئی کا ضدی بچے کی ہٹ دھرمی کا رویہ ایک لیڈر کو زیب نہیں دیتا۔ کوئی شخصیت پاکستان کی بقا اور سلامتی سے بڑھ کر نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان حالات میں تمام سیاسی اور فروعی مسائل کو بھلا کر ملک کی بقا اور سلامتی کی خاطر یک جان ہو کر فیصلے کئے جائیں۔ اس بار 23مارچ کا دن رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں میں آیا ہے دل مگر اداس ہے غزہ سے لے کر بلوچستان اور کے پی تک حالات کا چہرہ مضمحل اور لہو لہان ہے۔

تازہ ترین