سیاسی خبروں کے ہنگام میں اس خوش آئند خبر نے توجہ کھینچ لی کہ حکومت پاکستان طالب علموں کو جدید ایگری ٹیکنالوجی سیکھنے کیلئے چین بھیج رہی ہے تین سو طالب علم مارچ میں چائنہ جا رہے ہیں جبکہ مزید400 طالب علم اس سال کے وسط میںچین جائیں گے اور ان کا انتخاب مکمل میرٹ پر ہوگا۔ بلاشبہ اس وقت چین نے صنعت و حرفت میں، معاشی میدان میں گرین انرجی اور ہائی ٹیک ایگری کلچر کے شعبوں میں حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں۔چین میں زرعی زمین کل زمین کا 55فیصد ہے اربنائزیشن کے عمل میں زرعی زمین میں کمی واقع ہونے کے عمل میں اور آبادی بڑھنے کی وجہ سے چین نے اپنی فوڈ سیکورٹی پر جدید طریقوں سے کام کیا اور عمودی زراعت سے پھل سبزیاں اور اناج کھلے کھیتوں کی بجائے عمارتوں میں اگانے شروع کر دیے۔ پھل اور سبزیاں بغیر مٹی کے جدید طریقوں کے مطابق درجہ حرارت کو کنٹرول کر کے اُگائی جاتی ہیں اس طرح چین نےکم زرعی زمین اور زیادہ آبادی کے مسئلے کا بہترین حل تلاش کیا لیکن ہم ابھی تک پرانے وقتوں میں جی رہے ہیں۔ ہم نے یہاں پر شاپنگ پلازے بنا دیے دیکھا جائے تو ان شاپنگ پلازوں کی دکانیں بھی چائنہ کی بنائی ہوئی مصنوعات سے بھری ہوئی ہیں ۔چین میں ایگری ٹیکنالوجی نے حیران کن ترقی کی اور روایتی کھیتوں کے علاوہ شاپنگ پلازوں کےاندر جدید طریقوں کے ذریعے عمودی کھڑی کی گئی پلیٹوں میں سبزیاں اور پھل اگائے جا رہے ہیں جن میں مٹی کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ تمام سبزیاں پھل پانی میں اگائے جاتے ہیں۔دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ایک زرعی ملک کے حوالے سے ہے پاکستان کی افرادی قوت کاقریباً 60 فیصد زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے پاکستان کی ٹوٹل جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 26فیصد ہے پاکستان کازرعی رقبہ کل زمین کا47 فیصد ہے۔اتنے زرعی رقبے کے ساتھ پاکستان دنیا کے ان خوش قسمتی ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں زرعی رقبہ بہت زیادہ ہے۔ مگر 47 فیصد زرعی رقبے کے ساتھ ہماری حالت یہ ہے کہ کبھی یہاں آٹے کا بحران ہے توکبھی چینی کا بحران۔لوگ یہاں آٹے اور چینی کیلئےقطاروں میں لگ کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔آج بھی سیلاب آجائے یا بارشیں معمول سے زیادہ ہو جائیں تو پیاز اور ٹماٹر ہمسایہ ملکوں سے لینے پڑتے ہیں۔ہماری پھل منڈیوں میں بھارت اور ایران کا کیلا فروخت ہوتا ہے ۔ زراعت کے جو جدید طریقے چین میں استعمال کیے جا رہے ہیں کم سے کم جگہ پر ٹمپریچر کنٹرول کر کے گھروں کے اندر سبزیاں پھل اور ضرورت کا اناج اُگایا جا رہا ہے یہ تمام جدید طریقے ہمارے ہاں کیوں نہیں استعمال میں لائے جا رہے۔کہنے کو ہمارے ملک میں ایشیا کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی قائم ہے۔سوال یہ ہے کہ اس یونیورسٹی سے کتنے زرعی سائنسدان نکل رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کےغذائی مسائل کا حل پیش کیا ہے ۔ہمارا حال یہ ہے کہ جو اشیا پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں ان کی بھی یہاںکمی ہو جاتی ہے اور ہمیں دوسرے ممالک سے منگوانی پڑتی ہیں۔فوڈ سیکورٹی اس وقت دنیا کے بڑے مسائل میںپہلے نمبر پرہے لیکن ہمیں خبر نہیں کہ پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کیلئےکن جدید خطوط پر کام ہو رہا ہے ہو بھی رہا ہے یا ہم سیاست کی افیون کھا کر چین کی بانسری بجا رہے ہیں ۔پچھلی دو دہائیوں میں ہم نے زیادہ ڈاکٹر ،انجینئر اور ایم بی اے پیدا کیے ہمارے بچے کبھی سائنس دان بننے کا خواب نہیں دیکھتے ۔کیونکہ سائنس دان محض تنخواہ کیلئے نوکری نہیں کرتا وہ پروفیشن سے زیادہ پیشن میں اپنے جیون کو کھپاتا ہے جبکہ ہمارے جیسے سماج کا بنیادی مسئلہ معاش ہے اورمعاشی عدم استحکام کی بیڑیاں بڑے خواب دیکھنے سے روکتی ہیں۔پھر ہمارا تعلیمی نظام بھی ذمہ دار ہے ۔اس نظام میں کچھ نیا ایجاد کرنے اور کچھ نیا سوچ کر آگے بڑھنے کی تعلیم ہی نہیں دی جاتی۔ ہمارے میڈیا کا 95فیصد وقت ایسے ہی پروگراموں کو پیش کرنے میں گزرتا ہے جس سے لوگوں کو سمت نہیں ملتی ایسی لاحاصل بحثیں ایک افیون کی طرح لگ چکی ہیں۔جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ان موضوعات پر ہمارے پرائم ٹائم میں کوئی پروگرام پیش نہیں کیا جاتا۔اخبارات سے لے کر ٹی وی چینلوںتک اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں سے لے کر اور یوٹیوب چینلوں تک جو کچھ دن رات ہماری نظر سے گزرتا ہے اس سے ہماری سوچ رکے ہوئے پانی کے جوہڑ کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔قرآن حکیم کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ علم والے اور بغیر علم والے برابر نہیں ہو سکتے۔ ہمارااور ان ملکوں کا جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کو مسخر کرنے میں مصروف ہیں بس یہی فرق ہے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ہمارے بعد آزاد ہونے والےگراں خواب چینیوں نے دنیا کو اپنے علم اور عمل کی طاقت سے حیرت زدہ کردیا ہے چین سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی طالب علموں کو ہائی ٹیک ایگریکلچر ٹیکنالوجی سیکھنے کے لیے چین بھیجنے کا فیصلہ بہت اچھاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ چائنہ سے زراعت کی جدید ترین ٹیکنالوجی سیکھ کر یہاں کے مقامی کاشتکاروں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔اس حوالے سے بھی چین کے ماڈل کو فالو کرنا چاہیے جہاں جدید ایگری ٹیکنالوجی کے ہنر سے آراستہ سائنس دانوں کو چین کے دیہات میں بھیجا گیا جہاں انہوں نے مقامی کاشتکاروں کے ساتھ مل کر ان کی زمینوں پر نئے تجربات کیے اور فطرت اور ٹیکنالوجی کے امتزاج کے ساتھ ایک انقلاب برپا کیا ۔اگر ہم یکسو ہو کر زراعت کے شعبے ہی میں چین کو اپنا پیر و مرشد مان کرجدید ایگری ٹیکنالوجی کو اپنالیں اور اسے پاکستان کے دور دراز دیہات تک پہنچا دیں تو چند ہی برسوں میںیہاں زرعی انقلاب برپا ہوسکتا ہے مگر اس کیلئے باتیں نہیں عمل درکار ہے۔