• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

لاہور میں بہت سارے چرچ آج بھی اپنی اصل شکل وصورت میں ہیں لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر سو سے دو سو برس تک قدیم چرچ موجود ہیں۔اور پھر ان گرجا گھروں میں بعض میں آج بھی اس دور کا فرنیچر، بینچ اور دیگر اشیاء موجود ہیں۔ خیر لاہور کے گرجاگھروں میں خصوصاً قدیم گرجا گھروں کے بارے میں آئندہ بات کریں گے۔ لاہور کے تمام قدیم گرجا گھروں کا طرز فن تعمیر بہت خوبصورت اور متاثر کرنے والا ہے البتہ لاہور میں قیام پاکستان کے بعد جتنے بھی گرجا گھر تعمیر ہوئے وہ کسی طور پر خوبصورت اور فن تعمیر کا کوئی اچھا نمونہ نہیں بلکہ بعض گرجا گھر تو مکان نما عمارات میں ہیں اور اگر ان پر صلیب نہ ہو تو کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ چرچ ہے ۔

پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک بہت مشہور فلم مولا جٹ جس نے پاکستان کی فلمی تاریخ میں سب سے زیادہ بزنس کیا اور ڈھائی سال تک سینما گھروں میں اس کی نمائش ہوتی رہی فلم کا ہیرو سلطان راہی اور ہیروئن آسیہ اور ولن مصطفٰی قریشی تھے اس فلم کی شوٹنگ بھی دربار دھیان سنگھ کی حویلی میں ہوئی تھی۔ اس فلم کے سیٹ کے لئے جو جیل بنائی گئی تھی وہ آج بھی موجود ہے مطلب یہ ہے کہ اس جیل کی جالیاں اور کچھ سامان آج بھی اس حویلی کے تہہ خانے میں موجود ہے۔اس تاریخی حویلی میں کئی ڈراموں کی شوٹنگ اور ریکارڈنگ تک ہوئی ہیں اس تاریخی حویلی کو فلموں اور ڈراموں میں دکھا کر لاکھوں/کروڑوں کمانے والوں نے بھول کر بھی اس حویلی پر ایک پیسہ نہیں لگایانہ حکومت نے ان فلم اور ڈرامہ بنانے والوں سے تقاضا کیا کہ وہ اس شوٹنگ کے عوض بھاری معاوضہ دیں۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ میاں نواز شریف، مریم نواز شریف، وزیر اعلیٰ اور والڈ سٹی کے سربراہ کامران لاشاری لاہور کی تاریخی عمارات کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔بلکہ میاں نواز شریف کی سربراہی میں قدیم لاہور کی حویلیاں اور عمارات کو ان کے اصل تعمیراتی حسن کے ساتھ بحال کرنے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے اور میاں نواز شریف اس حوالے سے ایک ایک چیز کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔اس طرح بسنت کے حوالے سے بھی کامران لاشاری وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی ہدایت پر زوردار میٹنگیں کر رہے ہیں ۔کاش لاہور کا یہ روایتی تہوار پھر سے شروع ہو سکے مگر اس طریقے سے کہ کسی کی جان بھی نہ جائے اور ڈور بنانے والوں کو عقل آجائے کہ ہلکی اور شیشے ،دھات کے بغیر ڈور بنائیں اور دھاگہ بھی ہلکا استعمال کریں کسی بھی فیسٹیول کا مزا یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کا لطف اٹھائیں۔ارے بابا اگر پتنگ کٹ بھی جاتی ہے تو اس میں کون سا انا اور عزت کا مسئلہ ہے یہ تو ایک کھیل ہے اور کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے بہرحال اصل بات کی طرف آتے ہیں یقین کریں اس خوبصورت حویلی پر اگر تھوڑی توجہ دی جائے تو یہ ایک خوبصورت جگہ کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت ریسٹورنٹ میں تبدیل ہو سکتی ہے اور لوگ یہاں آکر بہت لطف اٹھا سکتے ہیں۔حال ہی میں کامران لاشاری کی سربراہی میں جو میٹنگ بسنت کے حوالے سے ہوئی اس میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر سید موسیٰ رضا نے بڑی مفید پریزنٹیشن دی۔

خیر سٹی اسکول کے پرنسپل محمد بختیار کے ہمراہ ہمت کرکے دربار دھیان سنگھ حویلی کے تہہ خانے میں پہنچ ہی گئے چونکہ یہ چھت کی تعمیر بغیرسریا، اینٹوں اور کنکریٹ سے ہوئی ہے اور چار/پانچ سو برس بلکہ اس سے بھی قدیم ہے ہمیں ہر پل یہ ڈر لگا ہوا تھا کہ ابھی کوئی چوڑی اینٹ اوپر سے آکر گرے گی اور یہ اینٹ وہ اینٹیں نہیں جو آج کل استعمال ہو رہی ہیں ایک خاص انداز کی چوڑی ٹائل نما اینٹ جس کی موٹائی بھی ہے مگر وہ چوڑی بہت ہے پھر چھوٹی اینٹیں یہ تمام اینٹیں صرف مٹی کے گاڑے اور دالوں کے ذریعے ایک دوسرے کے اندر پیوستہ کرکے لگائی گئی ہیں اور اب چار/ پانچ سو برس کے بعد اور بغیر کسی نگہداشت اور مرمت کے اب ان کے اندر وہ مضبوطی نہیں چنانچہ گھپ اندھیرے میںموبائل فونز کی لائٹ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہےتھے ۔ دوسرے ایک مدت سے بند حویلی میں سانپ، کیڑے مکوڑے ،خطرناک بچھودیگر حشرات الارض پیدا ہو چکے ہیں ۔حویلی بنانے و الوں نے اس کے اندر روشنی کا بڑا اعلیٰ انتظام کیا ہوا تھا بڑے بڑے روشن دان وغیرہ ،ظاہر ہے اس زمانے میں بجلی تو نہیں تھی صبح کو انہی روشن دانوں اور رات کو شمع دانوں سے کام لیا جاتا تھاتہہ خانے میں 1982ء تک گورنمنٹ سٹی مسلم لیگ ہائی اسکول کے پرائمری سیکشن کی کلاسیں ہوتی رہی تھیں اس سے پہلے قیام پاکستان سے قبل لاہور ڈسٹرکٹ اسکول اور دھیان سنگھ اسکول کی کلاسیں یہاں پر ہوتی رہیں ۔ہم کافی دیر تک اس حویلی کے تہہ خانے میں رہے اور ایک پل کے لئے آکسیجن کی کمی کا احساس نہیں ہوا یعنی حویلی بنانے والوں نے ہوا کا کیا انتظام کر رکھا تھا بلکہ یہاں آکر ٹھنڈک کا احساس ہوا جب ہم تہہ خانے سے باہر آئے تو ہماری کالی پینٹ اور کالے بوٹ سفید ہو چکے تھے موبائل کی روشنی میں دیکھا کہ ہر طرف گردوغبار اڑ رہا ہے بہرحال محلے کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس حویلی میں آسیب ہے مگر وہ آسیب /جن کسی کو کچھ نہیں کہتا۔

بہرحال یہ بہت خوبصورت حویلی ہے اور ہم نے اس حویلی کے تہہ خانے میں بہت دیر وقت گزارا سخت اندھیرا تھا دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر اس عمارت میں 1982ء یا اس کے بعد بھی پرائمری سیکشن کی کلاسیں ہوتی رہیں تو پھر کسی نے حویلی کے تہہ خانے سے روشنی بجلی کی لائٹیں اتار لیںاور کسی کے کہنے پر یہاں پر گندڈال دیا اور توڑ پھوڑ کر دی گئی حالانکہ حویلی تعمیر کرنے والوں نے اندر قدرتی روشنی کا بہت شاندار نظام رکھا تھا ان روشن دانوں کو بند کر دیا گیا اگر محکمہ تعلیم صرف اس کی صفائی ستھرائی ہی کرتا رہتا تو تاریخی عمارت کے لئے سیاحوں اور تاریخ کے طالب علموں کے لئے انمول تحفہ ہوتا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین