• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

لاہور علم وادب، فنون لطیفہ ، ثقافت، تہواروں اور عرس اور میلوں کا ایسا شہر ہے جس کے اندر قوس قزح سے بھی زیادہ رنگ ہیں ۔ہر میلے اور عرس کا اپنا ایک رنگ ہے اس لئے تو آج 70/80برس قبل لاہور میں ایک منادی والا یہ کہا کرتا تھا۔

سجنو ! اے لاہور اے

ست دن تے اٹھ میلے

گھر جاواں کیڑے ویلے

لاہور میں کئی طرح کے ڈھنڈورچی اور منادی کرانے والے آیا کرتے تھے کچھ صرف عرسوں کے بارے بتایا کرتے تھے کچھ مختلف دنگلوں کے بارے میں کچھ میلے ٹھیلوں اور نئی فلموں کے بارے میں اعلان کیا کرتے تھے۔ایک زمانے میں لاہور میں فلمی ستاروں کے دنگل بھی ہوا کرتے تھے۔سلطان راہی اور رنگیلا کے دنگل کے لاہور کے اخبارات میں اشتہارات شائع ہوا کرتے تھے اور لاہور کی دیواروں پر پوسٹر بھی چسپاں کئے جاتے تھے کیا دور تھا مختلف پہلوانوں کے دنگل کے اعلانات تو ڈھنڈورچی بڑے خوبصورت اور دلچسپ فقروں کے ذریعے کیا کرتے تھے کوئی نئی نسل کا نمائندہ یقین کرے گا کہ لاہور میں تیتر اور مرغ بازی کے بھی مقابلے ہوا کرتے تھے بٹیر بازی تو کہیں مینڈھوں اور کتوں کی لڑائی بھی کرائی جاتی تھی گھوڑوں کی دوڑایک خاص قسم کے تانگوں کے ذریعے ہوتی تھی ۔کبھی لاہور میں گُلی ڈنڈے کے ٹورنامنٹ بھی ہوتے تھے کبوتر بازی کے ٹورنامنٹ تو شائد اب ختم کئے جا رہے ہیں کبڈی کے ٹورنامنٹ بھی اب ویسے نہیں ہوتے ۔پتنگ بازی کے مقابلے اور پتنگ بازی تو لاہور کا مستقل ایونٹ تھا ۔ہفتے کی رات اور اتوار کی صبح لاہور کے چودہ دروازوں کے لوگ مکانوں کی چھتوں پر ہی نظر آتے تھے ۔خیر پتنگ بازی پر آئندہ ہفتے مستقل بات کریں گے ہم چونکہ پکے لاہوریئے بلکہ بھاٹی گیٹ کے رہنے والے ہیں لہٰذا ہم نے جو بسنت دیکھی ہے وہ صرف لاہور کے اندرون شہر کے لوگوں نے ہی دیکھی ہے جس کا ذکر بہت دلچسپ اور آج کی نسل کیلئے حیران کن بھی ہو گا ۔بہرحال ہم میاں نواز شریف،وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف، کامران لاشاری اور وقار احمد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ وہ لاہور کی ایک کھوئی ہوئی روایت کو زندہ کر رہے ہیں ۔

بسنت یقیناً لاہوریوں کیلئے ایک خوبصورت فیسٹیول ثابت ہو گا اور امید ہے کہ اب ماضی کی طرح کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا کھیل اور میلے انسان میں ہمیشہ توانائی اور مثبت سوچ کو جنم دیتے ہیں ۔بہت کم لاہوریوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ کبھی ہیرا منڈی /شاہی محلہ میں آج جو کوٹھے اور مکان ہیں وہ ایک کھلا میدان اور گھنے درختوں کا علاقہ تھا اور ڈینٹل کالج /ہسپتال کی تعمیر سے قبل یہ علاقہ ایک کھلا میدان تھا جہاں پر پتنگ بازوں کا میلہ لگا کرتا تھا یہاں پر کبھی گجر بھی اپنی بھینسیں،گائیں لاکر جمع ہوا کرتےتھے لاہور شہر کے مختلف پتنگ باز یہاں جمع ہو کر پیچ لڑایا کرتےتھے اس کو پنجابی میں ضدیں کہا جاتا ہے جب شاہی محلہ میں مکانات بن گئے تو یہ ضدیں پھر منٹو پارک میں شروع ہو گئیں ہم نے منٹو پارک والی ضدیں خود دیکھی ہیں شاعر مشرق علامہ اقبال نے سچ کہا تھا

زمانے کے انداز بدلے گئے

نیا رنگ ہے ساز بدلے گئے

آج بھی حویلی کے ایک حصےپر لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے اگر حویلی میں آسیب یا جن ہو تو محلے کے بچے صبح، شام اس حویلی کے باہر نہ کھیلیں اور نہ لوگ اس کے ایک حصے پر قابض ہو جائیں۔ایک وقت آئے گا لاہور میں تاریخی اور قدیم عمارات موجود نہیں رہیں گی بلکہ آپ صرف کتابوں میں عمارات کو دیکھیں گے اور وہ بھی شاید وہ تصاویر نہ ہوں ۔ جو ہم نے یا ہمارے بڑوں نے اصل شکل و صورت میں دیکھی ہیں۔ ہیرا منڈی کے قریب دو تاریخی بازار ہیں تحصیل بازار اور جج بازار، لاہورمیں ایک ایسا بازار ہے جو ایک جج سید محمد لطیف کے نام پر جج بازار کے نام سے مشہور ہے کبھی یہ جج بازار لاہور کے اشرافیہ کا علاقہ تھا کبھی بھاٹی گیٹ کا علاقہ لاہور کے تمام دروازوں سے زیادہ علم و فنون موسیقی،شعراء کرام، دانشوروں اور تعلیم یافتہ لوگوں کا علاقہ تھا۔بھاٹی گیٹ کی سماجی اور ثقافتی زندگی لاہور کے باقی تمام دروازوں سے مختلف اور زیادہ علمی ماحول کی حامل تھیں۔ گوآج کا بھاٹی گیٹ، جج بازار، بازار حکیماں اور تحصیل بازار اب بالکل وہ نہیں رہے جو آج سے 50 سال یا 100سال پہلے جیسے تھے اب جدید دورمیں جو مقام ماڈل ٹاؤن کو حاصل تھا وہ مقام بھاٹی دروازے کو باقی دروازوں میں رہا ہے۔ ہم نے کبھی بھاٹی دروازے کا وہ خوبصورت ماحول دیکھا ہے جس کو دیکھنے کے لئے آج بھی ہماری آنکھیں ترستی ہیں۔

پچھلے دنوں ہمیں وچھووالی گلی /بازار دیکھنے کا اتفاق ہوا یہ گلی صرافہ بازار/سوہا بازار اور رنگ محل کے قریب ہے کبھی اپنے طالب علمی کے زمانے میں وچھووالی گلی /بازار دیکھا تھا اس زمانے میں وچھووالی بازار، گلی ،محلہ کچھ بھی کہہ لیں آج کے مقابلے میں بہت صاف ستھرا تھا۔ وچھووالی کا اندرون گلی لوہاری دروازے سے بھی ہو جاتا ہے یہ گلی کوئی زیادہ چوڑی نہیں محلہ وچھووالی میں قیام پاکستان سے قبل زیادہ ہندو آبادتھے لہٰذا وہاں کئی مندر تھے مثلاً ٹھاکر دوارہ جوالا دلی، مکان دوارہ، بھیڑ جی کا استھان، مندر باوا ہرداس، مثلاً محلہ وچھووالی میں ایک ایسا بھی احاطہ تھا جس کے اندر چار مندر ایک ساتھ تھے اس طرح گمٹی بازار میں بھی کئی مندر تھے ۔

اندرون لاہور کے کئی دروازوں میں واقع مختلف محلوں اور احاطوں میں مندر اور شوالا وغیرہ کافی تعداد میں تھے قیام پاکستان کے بعد کئی مسلمان گھرانوں نے ان مندروں میں رہائش اختیار کرلی تھی ۔حویلی نونہال سنگھ (گورنمنٹ وکٹوریہ گرلز ہائی اسکول ) کے سامنے ایک مکان میں ہم نے خود مندر دیکھا ہے اور کنواں بھی دیکھا ہے اور اس گھر کے اندر اب لوگ رہتے ہیں ہم نے جین مندر، شاہ عالمی کے مندر میں بھی لوگ رہتے دیکھے ہیں۔(جاری ہے)

تازہ ترین