• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان

پاکستان کی سیاست کا المیہ ہےکہ انتقام کی سیاست ایک دوسرے کا وجود ختم کرنے کی کوشش میں اپنا بھی سب کچھ اس آگ میں بھسم کر دیتی ہے۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ’’ میں نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘ توپھر سیاسی نظام کا تلپٹ ہوجانا غیر معمولی بات نہیں ہوتی اقتدارپر قبضہ کرنے اورسیاسی مخالف کواقتدار سے نکالنے کیلئےہرحربہ جائز تصور کرلیا جائے اور بات ’’قبر ‘‘ ایک اور بندے دو تک پہنچ جائے تو پھر نہ صرف جمہوریت پٹری سے اتر جاتی ہے ۔ سیاست میں عدم برداشت ہی حکومتیں ختم ہونے کا باعث بنتی ہے ۔پاکستان میں ہمیشہ ’’پرامن انتقال اقتدار ‘‘ سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے لیکن مسلم لیگ (ق) ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے تین ادوار حکومت میں پر امن انتقال اقتدار ہوا۔تاہم جب 10اپریل2022ء کوعمران خان کو ووٹ کی طاقت سے اقتدار سے نکالا گیا تو انہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے ہتھیا رڈالنے سے انکار کر دیا،جب اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں نے سیاسی منظر تبدیل کر دیا تو وہ مسلسل تین سال سے اسٹیبلشمنٹ اور بر سر اقتدار حکومت سے ٹکریں مار رہے ہیں آج پاکستان کو جس سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی بنیادی وجہ عوام کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکارہے ۔

نصف صدی کی سیاست ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور عمران خان کے گرد گھومتی ہے 70ء کے عشرے میںذوالفقار علی بھٹو کا مغربی پاکستان میںطوطی بولتا تھا۔انہوں نے اپنی مقبولیت کے زعم میں سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگایاجسکے نتیجے میں اس وقت کی اپوزیشن نے ملک گیر تحریک چلا کر نہ صرف ان کو اقتدار سے محروم کر دیا بلکہ تختہ دار تک پہنچاد یا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی عدم برداشت ان کو ’’عدالتی قتل ‘‘ تک لے آئی۔چار عشروں سے زائد وقت گزرنے کے بعد سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو یہ کہہ کر سرخرو کر دیا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ انہیں 45سال بعد ازمرگ ’’نشان پاکستان ‘‘ دیا گیا ۔ نصف صدی گزرنے کے باوجود آج بھی پاکستان کے طول و عرض میں ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے کی گونج سنائی دیتی ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے حقیقی سیاسی جانشین ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کو تاریک راہوں پر ہی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا جب کہ فاطمہ بھٹو نے پاکستان میں سیاست کے بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا ۔

پاکستانی سیاست میںبار بار جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی رہی ضیا ء الحق کے آمرانہ دور میں سیاسی افق پر دو لیڈر ابھرے نواز شریف دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے لیڈر بن گئے جب کہ بے نظیر بھٹو نےذوالفقار علی بھٹو کی سوچ لے کر سیاست میں اپنا مقام پیدا کر لیا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ دونوں لیڈروں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر کے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرتی رہی جب دونوں نے مئی2006میں میثاق جمہوریت کر لیا تو کسی حدتک اسٹیبلشمنٹ کمزور ہو گئی لیکن بے نظیر بھٹو بے رحم لوگوں کے ہاتھوں لیاقت باغ میں جلسہ عام میں ماری گئیں ۔ 12اکتوبر 1999ء کو فوجی بغاوت کے ذریعے نواز شریف کو اقتدار سے محروم کر دیا گیاپرویز مشرف کا بس چلتا تو وہ نواز شریف کو تختہ دار تک پہنچا دیتا لیکن امریکہ اور سعودی عرب کے دبائو میں آکرپرویز مشرف اپنے عزائم کی تکمیل نہ کر سکا پھر نواز شریف کو 11سال جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی۔ان سے محض اس لئے اقتدار چھین لیا گیا کہ وہ پرویز مشرف کو نشان عبرت بنانا چاہتے تھے ۔نواز شریف نے اپنی سیاست میں تو لچک پیدا کی لیکن اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی وجہ سے وہ ملک کے چوتھی بار وزیر اعظم نہ بن سکے انکی جگہ ان کے بھائی شہباز شریف نے لے لی اور ان کی صاحبزادی مریم نواز پاور بیس پنجاب کی حکمران ہیں ۔نواز شریف نے کسی بات پر بضد رہنے کی بجائے حالات کو دیکھتے ہوئے سیاست میں کمپرو مائز کیا اور عدم برداشت کی پالیسی کو ترک کر دیا وہ بظاہر جاتی امرا میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں لیکن اب بھی انہی کی ہدایات پر شہباز شریف حکومت کام کر رہی ہے ۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک میں نواز شریف اور عمران خان دو ہی ٹکر کے لیڈرہیں،عمران خان پونے چار سال کے دوران اپنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ایک غیر مقبول لیڈر بن گئے تھے ممکن تھا وہ حکومت کے پانچ سال مکمل کرتے تو پاکستان کی عمران خان سے ہمیشہ کیلئے جان چھوٹ جاتی لیکن انہوں نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی اختیار کر کے نہ صرف اپنی مقبولیت بحال کر لی بلکہ اب وہ پورے نظام کیلئےتھریٹ بن گئے ہیں 16ماہ کی شہباز شریف حکومت نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا کر بڑا کام کیا ۔آج کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان ڈیفالٹ ہورہا ہے لیکن مسلم لیگ(ن) نے اس کی بھاری قیمت ادا کی اس کا ’’پولیٹکل کیپٹل‘‘ تباہ برباد ہو گیا وہ سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر نہ ابھر سکی اسے وفاقی حکومت بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کا سہارا لینا پڑا پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کوکوئی ایسا قدم نہیں اٹھانے دے رہی جس سے اس کی مقبولیت پر منفی اثرات مرتب ہوں، دوسری طرف پی ٹی آئی ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی ہے پچھلے دو سال سے اس کا لیڈر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے سر دست ڈیل نہیں ہو پا رہی عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم نے انکے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اتنے فاصلے پیدا کر دئیے ہیں کہ انکی رہائی کی گنجائش ختم ہوتی نظر آرہی ہے ۔ عمران خان کے شیدائی ’’خان ہے تو پاکستان ہے ، خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘ کے گیت تو گاتے ہیں لیکن ان کو خان کو رہا کرانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے کی عمران خان سے بیک ڈور چینل ملاقاتوں کا دوبارہ سلسلہ شروع ہوا ہے اگر ان کوششوں کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا تو عمران خان اگلی عید بھی اڈیالہ جیل میں ہی گزاریں گے ۔

تازہ ترین