صبح کی سیر کا معمول بہت عرصے سے ہے۔ رمضان المبارک کےایک مہینے کے وقفے کے بعد صبح کی سیر کا آغاز کیا۔ سر سبز گھاس تختے اور ان کے آس پاس کھلے رنگوں سے چھلکتے پٹونیا کے کھیت بڑھ کر استقبال کرتے اور روح کو تقویت دیتے تھے۔بہار کی نرم اور خوشبو سے لدی ہوا اندر تک اتر کر دل و ذہن کی کثافتوں کو صاف کر رہی تھی ،بہار کا یہ روح پرور استقبال اس وقت ایک عجیب کیفیت میں ڈھل گیا جب آنکھوں نے پارک کی روشوں پر سرسبز گھاس کے تختوں پر جگہ جگہ جوس کے ڈبے ،کھانے کی پلیٹیں ،چپس کے خالی ریپر بکھرے دیکھے ۔ یہ کوڑا کرکٹ جو کوڑے دان میں ڈالا جا سکتا تھا لوگوں نے فطرت کے خوش رنگ مناظر کو میلا کرنےکیلئے ہر جگہ بکھیر دیا۔اپریل کی پربہار صبح یہ ناخوشگوار مناظر دیکھ کر سخت کوفت ہوئی۔ پہلے میں سوچا کرتی تھی کہ شاید لوگ اس لیے پارک کی سر سبز روشوں پر اپنا گند پھینک کے چلے جاتے ہیں کہ مناسب تعداد میں یہاں پر ڈسٹ بن موجود نہیں تھے لیکن کچھ عرصے سے پارک انتظامیہ نے ڈسٹ بن کی اچھی خاصی تعداد پارک کے مختلف حصوں میں نصب کی ہے ،باوجود ان کا استعمال نہیں کیا گیا۔شاید یہی بیشتر پاکستانیوں کا مزاج ہے گھر سے باہر اپنے وطن کی ہر شے کے ساتھ دشمنوں کاسا سلوک کرتے ہیں ۔اپنے وطن کی کسی چیز کو اون نہیں کرتے اور بطور شہری ،ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے جو ذمہ داری ادا کرنی چاہیے اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔گھر کا کوڑا گلی میں پھینکنے والے پاکستانیوں کا یہی مزاج ہے۔
شمالی علاقہ جات کی سیر کے دوران بھی ایسے ناخوشگوار مناظر جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں کہاں تک قانون کا ڈنڈا آپ کو راہ راست پر رکھنے کیلئےحرکت میں آئے کچھ تو فرد کی اپنی ذمہ داری بھی ہے ۔سوال یہ ہے کہ پاکستانیوں میں یہ احساس ذمہ داری کیسے اجاگر کیا جائے۔پنجاب گورنمنٹ نے وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف کی سرپرستی میں صفائی کے حوالے سے کافی کام کرنا شروع کیا ہے۔چند روز پہلے کا مشاہدہ ہے ۔ نماز کے بعد منہ اندھیرے صفائی کے ورکرز سڑکوں پر جھاڑو لگا رہے تھے اب سارا دن ان سڑکوں کی صفائی کو برقرار رکھنے کا کام ان شہریوں کا ہے جن کے گھر یہاں موجودہیں یا جو ان سڑکوں پر آتے جاتے ہیں۔
یہ زندگی گزارنے کا وہ قرینہ ہے جو ہمیں اسکول کی سطح سے بچوں کو سکھانا چاہیے۔ابتدائی کلاسوں میں بچوں کو صفائی رکھنے کی تربیت دینی چاہیے۔جاپان کے اسکولوں میں بچے ابتدائی کلاسوں سے ہی اپنے کلاس روم کی صفائی کرتے ہیں اپنی کرسیوں کی ڈسٹنگ کرتے ہیں فرش اور دیواروں کو صاف کرتے ہیں۔جاپانی کلچر میں اسے گاکو سوجی کہا جاتا ہے اس کا مطلب ہے اسکول کی صفائی ستھرائی۔ایلیمنٹری اور ہائی اسکول کے بچے صفائی کو اپنی تعلیم کے ایک بنیادی نصاب کے طور پر سیکھتے اور مشق کرتے ہیں انکے نزدیک اپنی کلاسوں کی صفائی کر کے طالب علم کو سکھایا جاتا ہے کہ اس نے اپنے ماحول کو، اپنی جگہ کو کس طرح سے اون کرنا ہے ۔جاپانی کلچر میں صفائی ستھرائی کو ایک طرح کی شکر گزاری کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ جب آپ اپنی جگہ کو اپنے ماحول کو صاف رکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اندر ایک احساس ہے اس جگہ کی اہمیت کا، قدرت نے جو آپ کو ماحول دیا ہے اس کو صاف رکھ کر آپ اس فطرت کے شکر گزار ہیں۔
صفائی کرنے کا عمل ایک زندگی کرنے کا پورا نصاب سکھاتا ہے جس سے نظم و ضبط سیکھا جاتا ہے شکر گزاری سیکھی جاتی ہے ذمہ داری اٹھانا اور اس کو نبھانا سیکھا جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں جہاں بہت ساری خامیاں ہیں اس میں بنیادی خامی یہ ہے کہ 16 سال کی تعلیم کے دوران ہم طالب علموں کو پاکستان کو اونown کرنا نہیں سکھاتے۔تہذیب تمیز اور سلیقے کے ساتھ ایک شہری اور فرد معاشرے میں کیسے زندگی گزارتا ہے اسکی عملی تربیت نہیں دیتے۔بس ایک ویژن کی ضرورت ہے ۔معاشرتی آداب صفائی ستھرائی تہذیب تمیز اور سلیقے کے ساتھ زندگی گزارنے کے ہنر پر مشتمل ایک جامع نصاب ترتیب دیا جائے یہ اسکول کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کا حصہ بنایا جائے میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ہر ذریعے پر اس کی تشہیر کی جائے۔
معاشرتی آداب پر مبنی قوانین کا نفاذ اسی صورت میں عمل میں آ سکتا ہے جب اس کی خلاف ورزی پر سخت جرمانے ہوں تاکہ لوگ گھر سے باہر بھی اپنے ملک کی ہر چیز کو اپنا سمجھ کر استعمال کریں۔یہی لوگ بیرون ملک جا کر وہاں کے قوانین پر پوری دل جمعی سے عمل کرتے ہیں کیونکہ وہاں قانون توڑنے کی صورت میں جرما نے اور سزائیں موجود ہیں۔ کسی ملک کے باسیوں کا اصل مزاج دیکھنا ہو،اس ملک کے عوامی مقامات پر لوگوں کے رویے دیکھیں کہ جہاں پر قانون کا ڈنڈا موجود نہیں وہاں کے شہری قانون کا کتنا احترام کر رہے ہیں جہاں کوئی ٹریفک وارڈن موجود نہیں وہاں کس حد تک ٹریفک سگنل کی پابندی کررہے ہیں۔
اس ساری تمہید کو اگر آپ پاکستانی قوم پر لاگو کریں تو آپ کو پاکستانیوں کا اصل مزاج سمجھ میں آ جائے گا ۔اور کچھ نہیں تو تہوار کے بعد کسی عوامی پارک کا ہی دورہ کر لیں جو منظر آپ کو دکھائی دے گا وہی ان پاکستانیوں کا اصل چہرہ ہےجو سارا دن سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دوسروں کو اخلاقیات سکھاتے ہیں۔یہی پاکستانیوں کا سگنیچر اسٹائل ہے کہ تفریحی مقامات پر تفریح کیلئے جاتے ہیں لیکن وہاں پر اپنا گند اور کوڑا کرکٹ پھینک کر اس تفریحی مقام کے حسن اور خوبصورتی کو داغدار کر کے آتے ہیں۔