پاکستان میں ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن اسکیم 2021ء میں متعارف کروائی گئی تھی اس کا بنیادی مقصد برآمدات میں اضافے کیلئےویلیو ایڈڈ مصنوعات بنانیوالے برآمد کنندگان کی عالمی منڈی میں مسابقت کو بہتر بنانا تھا۔ ابتدائی طور پر اس سکیم کے تحت رجسٹرڈ برآمد کنندگان کی تعداد 800کے قریب تھی جبکہ اس وقت یہ تعداد 2000کے لگ بھگ ہے۔ قبل ازیں اس سکیم کے تحت برآمد کنندگان کو ڈیوٹی اور ٹیکس فری درآمدات کے ساتھ ساتھ تیار شدہ مصنوعات میں استعمال ہونیوالے مقامی ان پٹ سامان کی خریداری پر بھی سیلز ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ حاصل تھا۔ تاہم گزشتہ سال سے ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن اسکیم کے تحت ایکسپورٹرز پر بھی تیار شدہ مصنوعات میں استعمال ہونیوالے مقامی ان پٹ سامان کی خریداری پر سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔
اس سکیم کے تحت مقامی مارکیٹ سے خریداری پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کا سب سے زیادہ منفی اثر سپننگ انڈسٹری پر پڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیداواری لاگت کو کم رکھنے کیلئے زیادہ تر ایکسپورٹرز یارن بیرون ملک سے درآمد کر رہے ہیں جو معیار میں مقامی یارن سے بہتر اور قیمت میں کم ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب حکومت سے ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن اسکیم کے تحت یارن کی درآمد پر پابندیاں عائد کرنے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں جس سے برآمدات میں اضافے کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے پاس ٹیکسٹائل برآمدات میں فوری طور پر سات سے آٹھ ارب ڈالر اضافے کے مواقع موجود ہیں۔ تاہم اس کیلئے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل کو حل کرنا اور دیگر معاملات کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ اس کیلئے ملک میں بزنس فرینڈلی ماحول اور انڈسٹری کو فروغ دینے والی طویل المدت پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ برآمدات بڑھانے کا حکومتی ہدف بھی حاصل کیا جا سکے۔ اس لئے درآمدی یارن کے مقابلے میں مقامی یارن کی کھپت بڑھانے کیلئے بھی ایسی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس سے مسئلہ بھی حل ہو جائے اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو بھی اضافی مالی بوجھ برداشت نہ کرنا پڑے۔ اس حوالے سے بہتر پالیسی یہ ہو سکتی ہے کہ مقامی یارن انڈسٹری کو تحفظ دینے کیلئے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کیلئے لوکل یارن کی خریداری پر سیلز ٹیکس کا نفاذ ختم کر دیا جائے۔ اس سے ناصرف سپننگ انڈسٹری کو بچایا جا سکتا ہے بلکہ برآمدات کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں شفافیت برقرار رکھنےکیلئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرف سے ایسے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی لسٹ جاری کی جا سکتی ہے جو کہ 80فیصد یا اس سے زائد مال برآمد کرتے ہیں تاکہ ان کے علاوہ کسی کو سیلز ٹیکس کے بغیر یارن کی فروخت ممکن نہ ہو ۔ اس سلسلے میں مزید یہ کیا جا سکتا ہے کہ جس کاونٹ کا یارن برآمدی مصنوعات کی تیاری میں استعمال نہیں ہو رہا اس کی درآمد پر پابندی لگا دی جائے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی سپننگ انڈسٹری کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ درآمدی یارن نہ صرف سستا ہے بلکہ اس کا معیار بھی بہتر ہے۔ اسکے مقابلے میں پاکستان میں کوئی بھی سپننگ مل ایسی نہیں ہے جس کا یارن عالمی منڈی میں دیگر ممالک کے یارن کا مقابلہ کر سکے بلکہ مقامی یارن معیار کی نسبت کمتر اور قیمت میں دس سے 15 فیصد مہنگا ہے جس پر مزید 18 فیصد سیلز ٹیکس کی ادائیگی سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز اسے خرید کر مسابقتی قیمت پر برآمدات میں اضافہ کر سکیں۔ اس لئے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز بیرون ملک سے یارن درآمد کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وہاں کی سپننگ انڈسٹری جدید مشینری کی حامل ہے اور اس میں بجلی کی کھپت کم ہونے کے باعث ان کی پیداواری لاگت کم ہے۔ اس طرح درآمدی یارن پاکستان کے مقامی یارن کی نسبت بہت زیادہ سستا اور معیاری ہے۔ ہماری سپننگ انڈسٹری اب بھی 2002ء یا اس سے پرانی مشینوں پر انحصار کر رہی ہے کیونکہ ماضی میں سپننگ انڈسٹری حکومتی سبسڈیز پر انحصار کرتی رہی ہے۔ اسے وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ نہیں کیا گیا حالانکہ وقت کے ساتھ ساتھ سبسڈیز ختم ہو رہی ہیں اسکے باوجود سپننگ انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کیلئے تیار نہیں ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ مقامی سپننگ انڈسٹری مارکیٹ میں اپنا شیئر برقرار رکھنے کیلئے خود کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرے۔ اس وقت پاکستان کی سپننگ انڈسٹری کی زیادہ تر مشینری 20 سے 25 سال پرانی ہے جس میں بجلی کی کھپت زیادہ ہونے کے علاوہ پیداوار کی مقدار اور معیار بھی کم ہے۔ اس وجہ سے مقامی یارن کی پیداواری لاگت پہلے ہی عالمی منڈی کے مقابلے میں زیادہ ہے ایسے میں حکومت کی طرف سے اس پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ سے اس کی خریداری ایکسپورٹرز کیلئے بالکل ہی قابل عمل نہیں رہی ہے۔ یہ صورتحال اس وجہ سے بھی قابل تشویش ہے کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو برآمدی آرڈرز کے حصول میں پہلے ہی عالمی منڈی میں خطے کے دیگر ممالک سے مسابقت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لئے مقامی سپننگ انڈسٹری جب تک اپنی عالمی مسابقت بہتر بنانےکیلئےپرانی مشینری کی جگہ جدید مشینری پر منتقل نہیں ہو گی اور مقامی مارکیٹ میں عالمی منڈی کے نرخوں کے مساوی قیمت پر یارن فروخت نہیں کرے گی اس کو ان مسائل کا سامنا رہے گا۔