دو دہائیوں پر مشتمل سیاسی جدوجہد ، شاندار عروج لاکھوں کی فالونگ ،اقتدار کے سنگھاسن کے ساڑھے تین برس، پے در پے غلط فیصلوں کے شاخسانے، توہمات کے اسیر بزداری فیصلے، انانیت اور نرگسیت کےدائروں میں لاحاصل سفر، اقتدار سے بے دخلی ...اڈیالہ جیل میں قید تنہائی کاٹتے ہوئے کپتان کو تصور کی آنکھ سے دیکھوں تو مجھے بے اختیار منیر نیازی کا یہ شعر یاد آ تا ہے
میری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کی منیر
عذاب مجھ پہ نہیں حرف مدعا کے سوا
دوسری جانب میرے سامنے انگریزی ادب کے ٹریجک ہیرو کا تصور ابھرتا ہے اس تصور کے خاکے میں عمران خان کی کرشماتی شخصیت رنگ بھرنے لگتی ہے شخصیت میں وہی کرزما، وہی توانائی مگر کچھ ایسےFlaws ایسی کوتاہیاں جو شخصیت کے شیش محل کو بالآخر زمیں بوس کر دیتی ہیں ۔
ارسطو کے مطابق ٹریجک ہیرو اپنے قبیلے کا ایک نوبل کردار ہوتا ہے اس بنا پر عوام الناس میں مقبول ہو جاتا ہے، چاہا جاتا ہے، اس کے ارد گرد کی یہ فضا اسے خود پسندی اور گھمنڈ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ارسطو نے اس کیلئے لفظ Hubris استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں حد سے بڑھاہوا گھمنڈ اور خود پسندی۔ ٹریجک ہیرو میں وقت پر صحیح قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے وہ بیڈ ججمنٹ کی وجہ سے حالات کا اور معاملات کا صحیح ادراک کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ کوہ ہمالیہ جتنا احساس برتری اس کی ذات میں رعونت کے اندھیرے بڑھاتا ہے ۔
رعونت کے اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتا ہے اور خود کو برتر، وہ اپنے فیصلوں کو درست سمجھتا ہے اور یہ خیال اسے مشورہ سازی سے روکتا ہے۔ جب وہ خود کو سب سے بہتر گردانتا ہے اور اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ اس کی ججمنٹ، اس کے فیصلے آسمانی ہیں تو وہ اپنے اوپر کسی بھی قسم کی تنقید برداشت نہیں کرتا ہاں مگر دوسروں کو زہر میں بجھے تنقید کے تیروں سے چھلنی کرتا رہتا ہے کیونکہ وہ برتر ہے یکتا ہے ناگزیر ہے۔
ارسطو کے اسی المیہ ہیرو کے تصور کو بنیاد بنا کر انگریزی ادب میں شاہکار تخلیق کیے گئے۔ڈاکٹر فاسٹس ای ایم فاسٹر کا تخلیق کردہ ایک لازوال کردار ایسا ہی المیہ ہیرو ہے جو اپنی حد سے بڑھی ہوئی طاقت کے گھمنڈ میں اپنی روح برائی کی قوتوں کے ہاتھ گروی رکھ دیتا ہے اور بالآخر ایک المناک انجام سے دوچار ہوتا ہے وہ اس دوران کسی بھی طرح حالات کا صحیح تجزیہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ خود کو سب سے برتر سمجھتا ہے۔
المیہ ہیرو کو اپنے قلم سے جو تراش خراش اور جو شکل شیکسپیئر نے دی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ شیکسپیئر نے ماورائی کرداروں کی بجائے انسانی کرداروں کو اپنی تخلیق میں پیش کیا اور ان کرداروں کو المیے اور زوال سے دوچار کرنے والے افراد بھی ایسے تھے جن کے آئینے میں ہر انسان اپنی ذات میں موجود کوتاہیوں اور کمیوں کو دیکھ سکتا ہے۔ہیملٹ بھی ایک ایسا ہی کردار ہے شیکسپیئر نے ہیملٹ کے کردار کو بیان کرتے ہوئے اس کے کردار میں موجود ان کوتاہیوں کا تذکرہ کیا جس کی وجہ سے وہ زوال سے دوچار ہوا۔ شیکسپیئر کے اس شہرہ آفاق ڈرامے میں ہیملٹ کی Sololoquies یعنی خود کلامیاں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ خود کلامی کی طویل تقریروں میںوہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے عمران خان 126 دن کنٹینر پر کھڑے ہو کر بے سروپا تقریریں کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے اور اپنے سیاسی مخالفین پر نفرت میں بجھے تیر چلاتے رہے یوں سیاست میں رواداری، برداشت ،اور مفاہمت کے وجود کو لہو لہان کرتے رہے۔
24سال پہلے جو ساتھی عمران خان کے ساتھ ایک ایسی جماعت کو بنانے میں شر یک تھے، جس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں سیاسی سماجی معاشی عدم انصاف کو ختم کیا جائے وہ آغاز کے دور کے ساتھی ہوا کے رخ پر بدلتے ہوئے عمران خان کو دیکھ کر انہیں چھوڑ گئے۔کپتان کے کیے ہوئے فیصلوں سے اختلاف کی جرات کسی کو نہیں کیونکہ پارٹی میں عمران خان سیاسی رہنما نہیں ایک اوتار ہے ایک دیوتا جو ہر غلطی سے مبرا اور ماورا ہے۔
شیکسپیئر کا لازوال المیہ کردار ہیلمٹ جب یہ کہتا ہے
I will speak daggers to her ,but use noneتو مجھے عمران خان کی دھرنے والی جارحانہ تقریریں یاد آتی ہیں۔اس وقت سیاست میں جو عدم برداشت، بدزبانی، بہتان تراشی کا عنصر موجود ہے اس نے سیاسی ماحول میں برداشت اور مفاہمت کےوجود کو ادھ موا کر دیا۔
میری ناقص رائے میں 126دن کے دھرنے میں عمران خان کی شخصیت۔ ایک طرف تو بطور کرزمیٹک لیڈر کے ابھر کر سامنے آئی اور دوسری طرف بطور ایک سیاسی رہنما کے ان کی خامیاں اور شخصی کمزوریاں دنیا پر آشکار ہوئیں۔ اور اہل بصیرت جان گئے کہ عمران خان میں کچھ ایسی خامیاں موجود ہیں جس سے وہ اپنی حاصل کی ہوئی کامیابیوں کو ناکامی میں بدلتے دیر نہیں لگائیں گے اور پھر یہی ہوا۔ سیاسی مخالفین سے نفرت اور عدم برداشت پر مبنی یہی جارحانہ مزاج ان کا سگنیچر اسٹائل بن گیا۔ پی ٹی آئی اس وقت بدترین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے دوسری اور تیسری سطح کی سیاسی قیادت آپس میں بہتان تراشی اور بدزبانی میں مصروف اپنے سیاسی دیوتا عمران خان کی اسی تربیت کا عکس ہے جو انہوں نے اپنے عمل سے اپنے فالورز کو دی۔ ضد، انا ،ہٹ دھرمی، بہتان تراشی، جھوٹ، الزام کی سیاست جس میں برداشت مفاہمت لچک اور حکمت کو کوئی دخل نہیں۔ ان کی ذات جو نرگسیت انا پرستی اور جارحیت پسندی پر مبنی طرز گفتگو اور طرز عمل کا ایک امتزاج ہےجو ہمیشہ اس راہ میں حائل رہی کہ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر اپنی پارٹی کے دوسرے سیاسی رہنماؤں کی ایسی سیاسی تربیت کا ماحول پیدا کرتے جس سے عمران خان کے بعد بھی دوسری یہ تیسری سطح کی سیاسی قیادت تحریک انصاف میں پیدا ہوتی۔ ایک طرف یہ نقصان ہوا اور دوسری طرف وہ خود بھی بطور ایک سیاسی لیڈر کے Grow نہیں کر سکے۔
عمران خان کے سیاسی ارتقاء کے سامنے ان کا ہمزاد عمران خان نیازی سب سے بڑی رکاوٹ بن کر مقابل آیا۔ ایک کلاسیکی ٹریجک ہیرو کی طرح شخصیت کی تمام تر توانائیوں کے باوجود شخصیت کے چند Flaws ان کے عروج کو زوال آشنا کر گئے۔