• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قیام پاکستان سے قبل لاہور کی ہر گلی، محلہ اور کٹری اور احاطے میں ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگ رہتے تھے کہیں مندر، کہیں مسجد، کہیں گوردوارہ، کہیں پارسیوں کا عبادت خانہ تو کہیں جین مت، سناتن دھرم اور ہندوؤں کے کئی دیگر فرقوں کے عبادت خانے موجود تھے بلکہ لاہور میں بعض مندر تو کئی کئی کنال کے رقبے پر مشتمل تھے مگر اب ان کا نام ونشان نہیں، ماڈل ٹاؤن کے پرانے بلاکوں میں کبھی کئی مندر تھے اور کچھ آج بھی ہیں۔

وچھووالی میں مختلف سامان خصوصی چاندی کے برتنوں کی کبھی کئی دکانیں تھیں وچھو والی میں زیادہ آبادی ہندوؤں کی تھی دوسرے وہاں پر موجود مکانوں کا طرز تعمیر بالکل ہندوؤں کے مخصوص مکانات والا ہے اور قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی کثیر تعداد نے ہندوؤں اور سکھوں کے مکانات پر قبضہ کر لیا تھا اب کس نے جعلی پی ٹی او دیا تو کس نے صحیح یہ کمشنر کا محکمہ ہی بتا سکتا ہے کبھی وچھو والی اور محلہ بیچو والی میں چار مندر تھے۔ کبھی وچھو والی اندرون شہر کا بہت مصروف علاقہ تھا علاقہ تو آج بھی بڑا مصروف ہے مگر قیام پاکستان سے قبل آپ کو وچھو والی گلی/محلہ میں ہندو، سکھ اور مسلمان اپنے مخصوص لباس میں چلتے پھرتے نظر آتے تھے یعنی ایک ایسا بازار جس میں مختلف مذاہب کے لوگ کاروبار کرتے، رہائش رکھتے اور ایک دوسرے سے ملتے نظر آتے تھے۔ آج یہ علاقہ جس رش اور بھیڑ بھاڑ کا ہو گیا اس میں اب کوئی تہذیب اور شائستگی نہیں رہی اب تو جگہ جگہ پٹھان اور جوتیوں کی دکانیں بن چکی ہیں کبھی اندرون لاہور بعض بازار، مخصوص کاروبار کے لئے اپنی وجہ شہرت رکھتے تھے اب وہ کب کے ختم ہو چکے ہیں۔

مثلاً کوچہ گھنگھرو سازاں لاہورکے اندر ایک ایسا کوچہ /بازار تھا جہاں کے لوگ گھنگھرو بنانے میں شہرت رکھتے تھے یہ گھنگھرو وہ کلاسیکل رقص کے لئے بنایا کرتے تھے گھنگھرو بنانے کا فن بہت قدیم ہے اور برصغیر میں صدیوں سے لوگ اس فن سے آشنا اور اس کے کاریگر موجود ہیں۔دراصل ہندوؤں کے مذہب میں رقص کو بہت اہمیت حاصل ہے اور رقص گھنگھروں کے ذریعے بہتر انداز میں ہوتا ہے لاہور میں جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سے قبل ہیرا منڈی، انارکلی ،موچی گیٹ اور دیگر علاقوں خصوصاً ٹبی گلی میں گھنگھرو بنانے والے بے شمار کاریگر ہوتے تھے لاہور میں باقاعدہ ایک کوچہ گھنگھرو سازاں ہے جہاں پر کبھی بے شمار لوگ اس فن کے ماہر رہا کرتے تھے۔

گھنگھرو پیتل، تانبے، چاندی بلکہ امیر لوگ اپنی ان طوائفوں کےلئے جن سے وہ گانا سنتے تھے سونے کے گھنگھرو بنوایا کرتے تھے انڈیا کی مشہور فلم پاکیزہ میں مینا کماری نے اور پاکستانی فلم بدنام میں ڈانسر نے بڑے خوبصورت انداز میں گھنگھرو پہن کر رقص کیا ہے لاہور میں سب سے بہتر اور اچھے گھنگھرو بنانے والے ہوا کرتے تھے ۔مغل درباروں میں بغیر گھنگھرو کے رقص کا تصور نہیں تھا پاکستان اور بھارت کی کئی فلموں میں آپ گھنگھرو کے ذریعے ہونے والے رقص دیکھ سکتے ہیں۔ اصل کوچہ گھنگھرو سازاں ٹبی گلی میں ہے اور ٹبی گلی آج بھی لاہور کی ہیرا منڈی کی بدنام ترین گلی ہے۔ گھنگھرو بنانے والے لاہور میں نسل در نسل موجود ہیں البتہ اب ان کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے ۔قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بات بتاتے ہیں ہر سائز کے گھنگھرو کی آواز بھی مختلف ہو جاتی ہے یہ باقاعدہ ایک فن ہے ہمیں یاد ہے کہ ہم گورنمنٹ جونیئر ماڈل اسکول میں جب کلاس روم میں تھے تو اپنی ٹیچر جو کہ کوچہ فقیر خانہ میں ر ہتی تھیں اور بڑی خوش شکل تھیں ان کے ہاں ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے تو ان کی بہن گھنگھرو باندھ کر بڑا خوبصورت رقص کیا کرتی تھیں کوچہ فقیر خانہ ٹبی گلی کے قریب تھا ہمیں ہیرا منڈی کی ثقافت اور روایات کو قریب سے دیکھنے کا بڑا موقع ملا ہے ہمیں استاد امانت علی، نذر محمد کرکٹر کے بھائی محمد عاشق، نگو ڈانسر اور اپنے دور کی سب سے خوبصورت طوائف یاسمین کنول کو بھی دیکھنے اور ملنے کا موقع ملا ہے نگو ڈانسر تو قتل ہو گئی تھی پھر نادرہ اور ایک دو اور طوائفیں بھی قتل ہو گئی تھیں۔ لاہوریوں کے لئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ ٹبی گلی کبھی ہیرا منڈی کی بدنام زمانہ گلی نہیں تھی یہ ایک ایسی گلی تھی جہاں پر شاعر، فنکار اور فن موسیقی کے ماہرین کی بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں یہ فنون لطیفہ کا گڑھ تھا مغل دور حکومت کے شرفاء، شاعر اورفن موسیقی کے دلدادہ یہاں پر رہائش رکھا کرتے تھے مغل دور کے کئی فن موسیقی کے ماہر شاعر اور ثقافت کے علمبردار یہاں محفلیں جمایا کرتے تھے۔ 1849ء میں گوروں کی حکومت نے اس علاقے کو ریڈلائٹ ڈسٹرکٹ / ایریا کے طور پر بھی نام دیا تھا قیام پاکستان اور خصوصاً 1950ء کے بعد اس ٹبی گلی میں وہ پہلے والی بات نہ رہی بلکہ اس کی سرگرمیاں اور یہاں کی گلی میں کچھ ایسی سرگرمیاں شروع ہو گئیں جو معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھی جاتی تھیں البتہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس علاقے پر پابندی تو لگ گئی لیکن اندرون خانہ کچھ ناپسندیدہ سرگرمیاں جاری رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹبی گلی کے اردگرد کے علاقے بازار حکیماں، تحصیل بازار اور بھاٹی گیٹ کا علاقہ ایک زمانے تک شرفاء، عزت دار لوگوں اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کا مرکز تھا تو پھر شاہی محلہ / بازار حسن، ہیرا منڈی کی یہ سرگرمیاں ٹبی گلی تک کیسے آئیں۔ لاہور کی تاریخ کی پرانی کتب میں ٹبی گلی کو ادبی، ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جاتا رہا ہے۔ بھاٹی گیٹ نے کئی نامور لوگ پیدا کئے ان میں اساتذہ، دانشور، جج، گلوکار، حکیم، برصغیر کی فلمی دنیا کو ایک دنیا دی۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں علامہ اقبال دو مختلف گھروں میں رہائش پذیر رہے ایک مکان وہ جو ہمارے نانا کی ملکیت تھا اور دوسرا ایک مکان تھا اور ہمارےنانا میاں عید محمد مرحوم کے مکان کے تھڑے پر بیٹھ کر شاعری کا آغاز کیا وہ تھڑا آج بھی اس حالت میں بازار حکیماں میں موجود ہے۔ یہیں کوچہ فقیر خانہ، فقیر خانہ میوزیم، مشہور مبارک حویلی بھی ہے ارے کیا غضب کا علاقہ تھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین