• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے ماضی میں جمہوریت کے صدارتی نظام پر مبنی تکنیکی ماہرین پر مشتمل حکومت کی وکالت میں کئی مضامین لکھے ہیں۔ قارئین نے کبھی کبھار اسے غلطی سے ماضی میں پاکستان میں ہونیوالے صدارتی نظاموں کیساتھ الجھایا ہے۔ جبکہ حقیقت میں پاکستان میں کبھی بھی جمہوری طور پر منتخب صدر نہیں رہا جو صدارتی جمہوریت کی کلیدی خصوصیت ہے۔

پاکستان میں پارلیمانی نظام کا بنیادی مسئلہ اراکین پارلیمان کی خصوصی طور پر سائنس و انجینئرنگ کے شعبوں میں لاعلمی اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہے۔ صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ جب صدر مشرف کے دور میں حکومت نے پارلیمنٹ کی رکنیت کی اہلیت کیلئے گریجویٹ ڈگری کا لازمی ہونا متعارف کرایا تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تقریبا 200 اراکین پارلیمنٹ نے مبینہ جعلی ڈگریوں کا انتظام کیا اور اس طرح کی جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوگئے۔ جب ایچ ای سی(HEC) نے اس کا پتہ لگایا تو ایچ ای سی کو تباہ کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی جسے 2011ء میں میری طرف سے دائر درخواست پر سپریم کورٹ کی مداخلت سے روک دیا گیا تھا ۔ لہٰذا بدعنوانیوں کو روکنے کیلئے پارلیمنٹ کا کردار صرف قانون سازی اور نگرانی تک محدود ہونا چاہئے اور پارلیمنٹ کے کسی بھی رکن کو کوئی فنڈ فراہم نہیں کئے جانے چاہئیں تاکہ بدعنوانی کے عنصر کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔ ترقیاتی فنڈز کو بڑی حد تک منظور شدہ اسکیموں کیلئے نچلی سطح پرمقامی اداروں (Local Bodies) کو منتقل کیا جانا چاہئے تاکہ وہ حقیقی طور پر قومی فلاح و بہبود کیلئے استعمال ہوں۔ حکومت (یعنی وفاقی اور صوبائی وزراء اور انکے سیکرٹریز) کوزیادہ تر ملک کے اعلیٰ سائنسدانوں اور انجینئروں پر مشتمل ہونا چاہئے تاکہ پاکستان ٹیکنالوجی پر مبنی ایک مضبوط علمی معیشت کی طرف منتقل ہو سکے ۔ چین جیسے ممالک نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کیلئے سزائے موت متعارف کرائی ہے۔ اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے پاکستان میں بھی سخت سزائیں ضروری ہیں ۔

کئی ممالک کے تجربات سے اخذ کرتے ہوئے، ایک تکنیکی صدارتی نظام جمہوریت، استحکام اور پالیسی پر عمل درآمد کے لحاظ سے واضح فوائد کا حامل ہے، بالخصوص پارلیمانی نظام کے مقابلے میں تکنیکی صدارتی نظام قیادت مہارت کے اصول پر مرکوز ہوتا ہے۔ تکنیکی ماہرین وہ افراد ہوتے ہیں جو مخصوص علوم میں ماہر ہوتے ہیں، مثلاً معاشیات ، سائنس زراعت یا انجینئرنگ جیسے شعبوں میں۔ انکا انتخاب انکی سیاسی وابستگیوں کے بجائے ان کی قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ اس سےایک ایسا مربوط حکومتی ڈھانچہ وجود میں آئے گا جہاں حکومتی فیصلوں کو اعداد و شمار، تجرباتی شواہد اور پیچیدہ مسائل کی واضح تفہیم کے ذریعے کیا جاسکے گا ۔ ٹیکنوکریسی (Technocracy) کی کامیابی کی ایک اہم مثال سنگاپور ہے، جہاں لی کوان یو (Li Kwan Yu) کی نگرانی میں ایسی ٹیکنوکریٹک (Technocratic) قیادت وجود میں آئی جس نے ایک نہایت غریب قوم کوایک دیوقامت اقتصادی طاقتورملک میں تبدیل کر دیا۔ سنگاپور کے رہنماؤں نے مستقل ، طویل مدتی ترقی کے حصول کیلئے مالیات ، ٹیکنالوجی اور معاشیات میں مہارت حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی اور آج سنگاپور جس کی آبادی کراچی کی آبادی سے ایک چوتھائی ہے اسکی برآمدات 390ارب ڈالر سالانہ ہیں جبکہ پورے پاکستان کی برآمدات صرف35 ارب ڈالر پر محدود ہیں ۔

صدارتی نظام کی ایک اہم خصوصیت انتظامی (Executive) اور قانون ساز (Legislative) شاخوں کے درمیان اختیارات کی واضح علیحدگی ہے ۔ یہ تقسیم حکمرانی کے متوازن نظام کے لئے انتہائی مؤثر ہے ، جہاں صدر پالیسیوں پر عملدرآمد پر توجہ دے سکتا ہے جبکہ مقننہ(Legislation) قانون سازی پر توجہ مرکوز کرتا ہے ۔ متحدہ عرب امارات اور دوسرے ممالک میں ان شاخوں کی علیحدگی کسی بھی ایک شاخ کو غیر متناسب طاقت حاصل کرنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے ، جس سے جانچ اور توازن کے نظام کو یقینی بنایا جاتا ہے جو منصفانہ حکمرانی کو فروغ دیتا ہے ۔ اس کے برعکس ، پارلیمانی نظام سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے ، جیسا کہ اٹلی میں دیکھا گیا ہے ، جہاں حکومت میں بار بار ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پالیسی میں تضادات پیدا ہوئے ہیں اور معاشی ترقی میں خلل پڑا ہے ۔تکنیکی ماہرین کی قیادت میں صدارتی نظام میں تیزی سے فیصلہ سازی ہوتی ہے ، جو بحران کے وقت میں خاص طور پر اہم ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر ، میکسیکو (Mexico) کے صدارتی نظام نے اپنے رہنماؤں کو قانون سازی کی انتہا پسندی کو نظرانداز کرنے اور اہم معاشی اصلاحات کو بروقت نافذ کرنے کی اجازت دی ہے ۔ جبکہ پارلیمانی نظام میں معاملات بہت سست روی کاشکار ہوتے ہیں، جہاں اتحادی حکومتیں اکثر پالیسی پر اتفاق کرنے کیلئے جدوجہد کرتی ہیں ، جس کی وجہ سے تاخیر اور سمجھوتے ہوتے ہیں جو حکمرانی کو کمزور کرتے ہیں ۔تکنیکی ماہرین ، اپنی مہارت کی وجہ سے تمام معاملات بخوبی انجام دے سکتے ہیں اور ایک مضبوط علم پرمبنی معیشت کے قیام کی بہترین منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ۔جبکہ پارلیمانی نظام میں سیاستدان علم پر مبنی معیشت کے بارےمیں کچھ نہیں جا نتے ۔ چین میں ، اگرچہ جمہوریت نہیں ہے ،لیکن حکمرانی میں تکنیکی ماہرین کی شمولیت کی وجہ سے اس تیزی سے ترقی ہوئی ہے جس سے پوری دنیا حیران رہ گئی ہے ۔ پارلیمانی سیاست میں اکثر فیصلہ سازی ووٹ حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہے نہ کہ ملک کی ترقی کیلئے۔ ایک تکنیکی ماہرین پرمشتمل صدارتی نظام میں فیصلہ سازی کا اختیار ماہرین کے ہاتھوں ہوتا ہے جس میں قومی مفادہی کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں ۔تکنیکی نظام صدارت میں اہلیت پر زور ہوتا ہے ، قائدین اور فیصلہ سازوں کا انتخاب سیاسی وفاداری کے بجائے ان کی قابلیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ یہ نظام نااہل افرادکی سیاسی سرپرستی کے بالکل برعکس ہے جو اکثر پارلیمانی نظام کو متاثر کرتی ہے ۔ جرمنی میں ، جہاں تکنیکی حکمرانی نے معاشی انتظام میں اہم کردار ادا کیا ہے ، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی صنعتیں اچھی قیادت کی وجہ سے پروان چڑھی ہیں ۔ ایک تکنیکی حکومت کا صدر سیاسی تحفظات کے بجائے حقیقت اور نئی دریافتوں پر مبنی بصیرت کی بنیاد پر معاشی پالیسی پر عمل کرنے کیلئے بہتر طور پر لیس ہوتا ہے ۔ یہ سنگاپور میں خاص طور پر واضح ہوا ہے ، جہاں ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت اور اقتصادی انتظام پر توجہ مرکوز کرنے کے نتیجے میں ایک انتہائی مستحکم کاروباری ماحول پیدا ہوا ہے ۔

جرمنی اور سنگاپور اس بات کی بہترین مثالیں ہیں کہ کس طرح تکنیکی قیادت کسی قوم کی عالمی حیثیت کو بڑھا سکتی ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں طویل مدتی سرمایہ کاری کو ترجیح دے کر ، ان ممالک نے خود کو عالمی جدت طرازی میں قائدین کے طور پر قائم کیا ہے ۔ سنگاپور ، جنوبی کوریا اور جرمنی جیسے ممالک کے تجربات سے یہ واضح ہے کہ تکنیکی ماہرین کی قیادت میں صدارتی نظام 21 ویں صدی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے خواہاں ممالک کیلئے اہم فوائد رکھتا ہے۔ تاہم، صرف تکنیکی ماہرین ہی کافی نہیں ہیں۔ کسی ملک کی ترقی کیلئے ایک قابل، غیر جانبدار اور مؤثر عدالتی نظام بھی انتہائی اہم ہے۔ پاکستان اگر ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت تیار کرنا چاہتا ہے، تو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ججوں کو بیرونی دباؤ میں نہیں ڈالا جا سکے، جو ہمارے مستقبل کیلئے بہت اہم ہے۔ ہمارا مستقبل ہمارے نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو بے نقاب کرنے ہی میں مضمر ہے۔ اس کیلئے ہمیں تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی ، جدت طرازی اور صنعتکاری کو سب سے زیادہ قومی ترجیح دینی چاہئے جس کیلئے ایک ایماندار، قابل اور پرُبصیرت قیادت وقت کی فوری ضرورت ہے۔

تازہ ترین