کراچی (نیوز ڈیسک) غزہ میں اسرائیلی بمباری کے دوران اپنے خاندان کے 10افراد سمیت شہید ہونے والی فلسطینی فوٹو جرنلسٹ فاطمہ حسونہ کی دستاویزی فلم ’پٹ یور سول آن یور ہینڈ اینڈ واک‘فرانس میں ہونے والے فلم فیسٹیول کانز میں نمائش کے لئے منتخب کی گئی تھی۔
غزہ پر ان کے گھر پر حملے سے ایک روز قبل ہی ان کی منتخب کانز کیلئے منتخب کی گئی تھی ،فاطمہ حسونہ نے موت سے قبل ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ موت ناگزیر ہے، چاہتی ہوں میری موت ایسی ہو جس پر پوری دنیا میں بات ہو، دستاویزی فلم میں حسونہ کیساتھ شریک سپیدہ فارسی کا کہنا ہے کہ شائد اسرائیل نے حسونہ کو اس لئے نشانہ بنایا کیونکہ فلم کا اعلان ہوچکا تھا۔
فاطمہ غزہ کی یونیورسٹی کالج آف اپلائڈ سائنسزسے گریجویٹ تھیں ، وہ نہ صرف ایک فوٹو گرافر تھیں بلکہ غزہ میں جاری حقیقی منظر نامے کی عینی شاہد بھی تھیں جہاں حالت دن بدن خراب ہورہے ہیں، اپنی شہادت سے چند گھنٹے قبل، انہوں نے اپنی بالکنی سے غروب آفتاب کی ایک تصویر پوسٹ کی، اور لکھا: "یہ ایک طویل عرصے میں پہلا غروب آفتاب ہے جس کا وہ نظارہ کررہی ہیں۔
"اس سے پہلے کی ایک پوسٹ میں، انہوں نے لکھا تھا: "موت ناگزیر ہے، اگر میں مر جاؤں، تو میں ایک ایسی موت چاہتی ہوں جو خاموش موت نہ ہو، میں چاہتی ہوں کہ میں بریکنگ نیوز کی کہانی بنوں نہ ہی کسی گروہ کے ساتھ ایک نمبر کے طور پرمیرا شمارہو ، میں ایک ایسی موت چاہتی ہوں جس پر پوری دنیا میں بات ہو ، ایک ایسا نشان جو ہمیشہ رہے، اور لافانی تصاویر جنہیں نہ وقت دفن کر سکے اور نہ ہی کوئی جگہ۔
"غزہ میں جنگ کی تباہ کاریوں اور انسانی ہلاکتوں کو دستاویزی شکل دینے والے فوٹو جرنلزم کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والی حسونہ کو ہدایت کار سیپیدہ فارسی نے ’روشنی‘ اور ’بہت باصلاحیت‘ قرار دیا تھا۔
اس دستاویزی فلم کی کہانی فاطمہ حسونہ اور سپیدہ فارسی کے درمیان ہونے والی ویڈیو گفتگو کے گرد گھومتی ہے، جس میں ایک نوجوان خاتون کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اپنے وطن کی تباہی کو دستاویزی شکل دیتی ہے۔
سپیدہ فارسی نے کہاکہ اس نے کہا تھا کہ میں (کانز) آؤں گی، لیکن مجھے غزہ واپس جانا ہے، میں غزہ چھوڑنا نہیں چاہتی اور ’اب پورا خاندان شہید ہوچکا ہے‘۔
شہدا میں حسونہ کے بہن بھائی بھی شامل ہیں جن میں سے ایک بہن حاملہ تھی، چند روز قبل ہی حسونہ نے ایک ویڈیو کال کے ذریعے فارسی کو اپنی بہن کا بیبی بمپ دکھایا تھا۔
حال ہی میں منگنی کرنے والی حسونہ مبینہ طور پر فرانسیسی سفارت خانے کے ذریعے سفری انتظامات حاصل کرنے کے ابتدائی مراحل میں تھیں۔