کراچی (رفیق مانگٹ) سعودی عرب نے ٹرمپ انتظامیہ کے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کی حمایت کی ہے، سعودیہ کا یہ موقف دس سال قبل اوباما کے ساتھ ایران کے معاہدے کی مخالفت سے مختلف ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری اور معاشی تنوع کے پروگرام نے اس نئے مؤقف کو جنم دیا۔ مذاکرات، جو عمان کی ثالثی میں ہو رہے ہیں، خطے میں امن کے لیے اہم ہیں۔
عرب ممالک، بشمول مصر، اردن، اور قطر، نے بھی سفارت کاری کی حمایت کی ہے تاکہ کشیدگی کم ہو اور استحکام بڑھے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق گزشتہ دہائی میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے، جو اب ٹرمپ انتظامیہ کے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کی حمایت میں سعودی عرب کے نئے مؤقف سے ظاہر ہوتی ہے۔
دس سال قبل، جب سابق صدر باراک اوباما نے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا، سعودی عرب نے اسے کمزور معاہدہ قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی تھی۔
سعودی حکام کا خیال تھا کہ یہ معاہدہ ایران کو خطے میں مزید جارحانہ بنانے کا باعث بنا۔ لیکن اب، جب دوسری ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ساتھ اسی طرح کے ایک معاہدے پر مذاکرات کر رہی ہے، سعودی عرب کا نقطہ نظر بالکل مختلف ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے کہا ہے وہ عمان کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات سے خطے اور دنیا میں امن کے فروغ کی توقع رکھتی ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے بھائی اور وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کو تہران بھیجا، جہاں ایرانی حکام نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
شہزادہ خالد نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھی پہنچایا، جو کہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے ۔
سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک، جیسے کہ مصر، اردن، قطر، اور بحرین، نے ان مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے، اور وہ سفارت کاری کو بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ترجیح دیتے ہیں۔
عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے ایکس پر لکھا، یہ مذاکرات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، اور اب ناممکن بھی ممکن نظر آتا ہے۔