دو دن پہلے ایک’’ معتوب‘‘ سول جج علی ثنا بخاری کے بارے میں ایک خبر تھی کہ سپریم کورٹ نے ان کی پنشن اور واجبات ادا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ علی ثنا بخاری پہلے سکالر ہیں جنہوں نے منٹو پر پی ایچ ڈی کیا۔مجھے یہ مقالہ اشاعت سے پہلےپڑھنے کا اس،لئے موقع ملا کہ میں ان کا ممتحن تھا اور لاہور جا کے ان کے نگران ڈاکٹر وحید قریشی کے ساتھ ان کا زبانی امتحان بھی میں نے لیا تھا ۔اس سے پہلے منٹو کے ایک شیدائی پروفیسر سجاد شیخ نے منٹو کے مرتب کردہ ' ہمایوں ' کے فرانسیسی اور پھر روسی ادب نمبر دکھائے منٹو کے خلاف مقدمات کا پورا ریکارڈ دکھایا اور منٹو کی بڑی بہن کا کئی گھنٹوں پر محیط انٹرویو سنوایا ۔ سجاد شیخ نے منٹو کی کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور پہلی مرتبہ ویو پوائنٹ میں لکھا کہ علی گڑھ سے منٹو طبی بنیاد پر نہیں ( تپ دق کے شبے میں ) فارغ نہیں ہوئے تھے بلکہ علی گڑھ کی فضاباری علیگ کے تیار کردہ گوریلے کو برداشت نہیں کر سکتی تھی جس نے جلیانوالہ باغ کے سانحے پر افسانہ ' تماشا ' لکھا ، سرگزشت اسیر اور ویرا جیسے ترجمے کیے ۔
گورڈن کالج پنڈی کے پرانے طالب علم جانتے ہوں گے کہ انہیں دور ضیاع نے ذہنی مریض،بنا،دیا ۔اس،تناظر میں علی ثنا شاکر کے مقالے میں مجھے ایک حصے نے چونکایا تھا ۔آپ جانتے ہوں گے عائشہ جلال کے والد حامد جلال کو جو منٹو کے بھانجے تھے،انہوں نے منٹو کے مرنے کے بعد چاہا کہ اپنی جن کتابوں کے حقوق منٹو نے آدھی بوتل کے عوض،پاکستان کے عظیم ناشروں کو منتقل کئے ان سے واپس خرید کے منٹو کی بیوہ صفیہ اور تینوں بیٹیوں کے نام کر دئیے جائیں ۔علی ثنا بخاری نے ان ناشران کرام کے چہرے بے نقاب کئے جنہوں نے منٹو کی بیوہ اورتین یتیم بچیوں کے نام حقوق دیتے ہوئے بھاری رقم طلب کی سوائے مولوی نذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی نے جن کے’’ساقی ‘‘ دہلی نے منٹو کے افسانے تواتر سے شائع کئے انہوں نے کہا کہ میں یہ حقوق اشاعت بلا معاوضہ منٹو کی بیوہ اور کم سن بچیوں کو دیتا ہوں ۔بہر طور علی ثنا بخاری ڈاکٹر علی ثنا بخاری ہوئے اور پھر معطل ہوئے اب انہیں ریٹائرمنٹ کے 21برس بعد سپریم کورٹ نے جزوی انصاف دیا ہے ۔میں ضعیف الاعتقاد نہیں میں انیس ناگی کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جو اپنی خوبصورتی اورپنجاب سیکرٹریٹ میں بڑی مسندکے باوجود دو ایک مرتبہ معطل ہوئے ۔منٹو کے’’ ججوں‘‘ نے اسے بری کر دیا تھا مگر بہت عرصے تک وہ معتوب رہا۔
یہاں مجھے سید عابد علی عابد کی پہلی بیوہ بلقیس عابد علی کی تحریر یاد آتی ہے جو انہوں نے منٹو کے گل خنداں نمبر میں لکھی تھی’’ جب تک منٹو زندہ تھا آس تھی کہ جہاں کہیں ناانصافی ہو گی اس کی آواز،بلند ہو گی آج وہ امید بھی نہ رہی ۔