• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصل آباد سمیت پنجاب بھر کی ٹیکسٹائل ملز اور دیگر صنعتی اداروں میں برآمدی سامان سے لدے کنٹینرز کئی روز سے کراچی پورٹ کے ذریعے بیرون ملک بھجوانے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ تاہم دریائے سندھ سے نکالی جانے والی مجوزہ نہروں کے مسئلے پر جاری احتجاج کے نتیجے میں سڑکوں کی بندش کے باعث برآمدی سامان سے لدے یہ کنٹینرز تاحال کراچی روانہ نہیں ہو سکے ہیں۔ اس حوالے سے اگرچہ 24 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات میں یہ طے پا چکا ہے کہ اتفاق رائے کے بغیر کوئی نہر تعمیر نہیں کی جائے گی۔اس کے باوجود سندھ میں جاری احتجاج ختم نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں سے کراچی پورٹ جانے والی ٹریفک کی آمد ورفت بحال نہیں ہو سکی ہے جس کی وجہ سے جہاں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو برآمدی آرڈرز کی بروقت ترسیل نہ ہونے کے باعث مالی نقصان کا سامنا ہے وہیں وہ برآمدی آرڈرز کی متوقع منسوخی کے اندیشوں سے بھی پریشان ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ برآمدی سامان کی ترسیل کے لیے درکار کنٹینرز کی قلت کے باعث فی کنٹینر کراچی تک کا کرایہ ڈھائی لاکھ سے بڑھ کر چار لاکھ روپے ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں کراچی کی بندرگاہ سے ابتک تین مال بردار بحری جہاز برآمدی مال لئے بغیر روانہ ہو چکے ہیں اور ایکسپورٹرز کو برآمدی آرڈرز کی بروقت ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس بحران کے باعث کراچی سے سکھر تک کنٹینرز کی قطاریں لگی ہوئی ہیں جن میں آئل ٹینکرز سے لے کر ہر قسم کے سامان سے لوڈ ٹینکرز اور ٹرک و دیگر گاڑیاں ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہیں اور ان کے ڈرائیورز و دیگر عملہ کھانے اور دیگر سہولیات کی دستیابی سے بھی محروم ہیں۔ علاوہ ازیں سڑکوں پر لاوارث کھڑی مال بردار گاڑیوں سے سامان چوری ہونے کی بھی اطلاعات آ رہی ہیں اور اگر اس دوران کوئی بڑا حادثہ ہو گیا تو اس سے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ سڑکوں پر موجود احتجاجی مظاہرین کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کروڑوں روپے مالیت کی خوردنی اشیاء، پھلوں اور سبزیوں سے لدے ہوئے ٹرک بھی راستے میں پھنسے ہوئے ہیں اور یہ سامان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خراب ہو رہا ہے لیکن کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اگر آپ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے احتجاج کر رہے ہیں تو دوسروں کے حقوق کا بھی خیال کریں۔ یہ صورتحال وفاق اور سندھ حکومت کی انتظامی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ پہلے انہوں نے نہروں کے مسئلے پر باہمی افہام و تفہیم میں تاخیر سے کام لیا اور اب سڑکوں کی بندش ختم کروانے کے حوالے سے بھی فوری اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ ان حالات کے باعث برآمدی صنعتوں خاص طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری میں پیداواری عمل بھی متاثر ہو رہا ہے کیونکہ درآمدی سامان بھی بندرگاہ پر پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز اپنی اگلی شپمنٹس تیار کرنے سے قاصر ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سی ٹیکسٹائل فرمز نے اس وجہ سے بھی پیداواری عمل کو جزوی طور پر بند کر دیا ہے کیونکہ درآمدی شپمنٹس بروقت بیرون ملک نہ پہنچنے کی وجہ سے انہیں اپنے گاہکوں کی جانب سے ادائیگیاں رک گئی ہیں اور ان کے پاس اپنے ورکرز اور وینڈرز کو ادائیگیاں کرنے کے لئے بھی مناسب رقم موجود نہیں ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہائی انرجی ٹیرف اور بینکوں کے مارک اپ کی شرح زیادہ ہونے سے عالمی منڈی میں مسابقت کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا تھا جس کی وجہ سے ایکسپورٹ سیکٹر کافی دبائو کا شکار تھا۔ تاہم گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت نے جہاں مارک اپ ریٹ میں نمایاں کمی کی ہے وہیں وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں انڈسٹری کے لئے بجلی کی قیمت میں بھی تقریبا آٹھ روپے فی یونٹ تک کی کمی کا اعلان کیا ہے۔ اس سے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اب ایکسپورٹ میں تیزی سے اضافہ ہو گا لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں عالمی اور قومی حالات جس تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اس سے ایکسپورٹ سیکٹر میں ایک بار پھر مایوسی بڑھنے لگی ہے۔ قبل ازیں امریکہ کی طرف سے ٹیرف کے نفاذ نے پاکستان کی برآمدات پر تلوار لٹکا رکھی تھی اور اب احتجاج کرنے والوں نے خود اپنی ہی معیشت کی لائف لائن بند کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمیں ملک کی معاشی ترقی اور استحکام سے زیادہ اپنی انا اور ضد زیادہ عزیز ہے۔

اس سے پہلے گزشتہ سال نومبر کے آخری ہفتے اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کے دوران بھی تقریبا چار سے پانچ روز تک وفاقی دارالحکومت، موٹرویز اور ہائی ویز مکمل طور پر جبکہ صوبہ پنجاب جزوی طور پر بند رہا جس کی وجہ سے ملک بھر میں معاشی سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچا۔ اس حوالے سے حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ملک کو یومیہ تقریبا 190 ارب روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب پھر چند ماہ بعد ہمیں دوبارہ ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے ملک کو معاشی طور پر مستحکم اور خوشحال بنانے کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں۔ اس وقت بھی اگر سڑکوں کی بندش ختم ہونے سے برآمدی اور درآمدی مال کی ترسیل بحال ہو جاتی ہے تو معاملات کو معمول پر آنے میں ایک سے دو ماہ لگ جائیں گے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اس روئیے کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کرنے یا کاروبار کرنے سے گھبراتی ہیں حالانکہ اگر یہ مسائل نہ ہوں تو پاکستان کی ایکسپورٹ بھی باآسانی 50 سے 60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ سکتی ہے۔

تازہ ترین