ہندوستان کے انتخابات نے سیکولرازم کا دامن تار تار کر دیا اور ہندوتوا کی پرچارک پارٹی نے دنیا کے ہرفرد کو یہ پیغام سنادیا کہ ’’یہ ہندوستان ہے پیارے!‘‘ سیکولرازم کی دعوایدار پارٹی کانگریس کو پہلی بار بھاری شکست ہوئی ہے۔ بھارتی انتخابات کے 16ویں حملے میں بڑے بڑے بت ٹوٹ گئے۔ 67سال تک بھارت کو سیکولر ملک قرار دے کر دو قومی نظریئے کی نفی کی جاتی رہی لیکن اب نریندر مودی کی پارٹی نے اس نظریئے کو زندہ کر دیا۔ اب واضح ہو گیا کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے اور پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے۔ اب ہندوستان کو دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ ایک ہندوتوا ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کے جان ومال کا ہندوتوا حکومت کس طرح تحفظ کرتی ہے۔ سیکولر اندرا گاندھی نے تو اپنے تئیں نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا لیکن ہندوتوا نریندر مودی نے بحرہ ہند سے دو قومی نظریئے کو نکال لیا اور پھر بنارس گئے اور وہاں انہوں نے دریائے گنگا کے کنارے عبادت کی۔ گنگا ہندوئوں کے نزدیک متبرک دریا ہے۔انہی دنوں افغانستان میں بھی انتخابات کا دور دورہ ہے۔ صدارتی انتخابات کا تیسرا دور ہونے والا ہے۔ امکان ہے کہ وہاں اللہ کا ڈبل بندہ جو ہندوستان کا حامی ہے صدر منتخب ہو جائے گا۔ افغانستان کے صدراتی انتخابات میں عبداللہ عبداللہ کو برتری حاصل ہے۔ عبداللہ کے معنی ہیں اللہ کابندہ اور دوبار عبداللہ کہاجائے تو اسے افغانستان میں اللہ کا ڈبل بندہ کہاجاتا ہے۔ افغانستان کی تاریخ میں اس ملک پر جو حملہ آور ہوا پہلے اس کو مہمان بتایا گیا پھر مہمان کو اس طرح رخصت کیا گیا کہ اس کے ملک کا نقشہ بدل دیا، تاریخ بدل دی۔ سکندر اعظم کی لاش گئی تو یونان یونانی دواخانوں تک محدود ہو گیا۔ انگریز کو رخصت کیا گیا تو جس مملکت کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اس ملک میں سورج نے طلوع ہونا بند کردیا۔ سوویت یونین رخصت ہوا تو رقبے کے لحاظ سے دنیا کاسب سے بڑا ملک کئی ٹکڑوں میں بٹ کر محدود ہوگیا۔ اب 2014ء میں امریکہ کی رخصتی ہے۔ ابھی تو وہ چین سے لے لے کر قرض کی مے پی رہا ہے۔ لگتا ہے جلد فاقہ مستی رنگ لے آئے گی اور ان رنگوں کو ساری دنیا حیرت سے دیکھے گی۔امریکہ خود تو افغانستان میں آیا وہ ہندوستان کوبھی لے آیا اس سے کہا چڑھ جا بیٹا پہاڑ پہ، رام بھلی کرے گا…اب افغانستان کی تاریخ کیا کرتی ہے۔ یہ دیکھنا ہے کیونکہ عبداللہ عبداللہ کو ہندوستان سے بہت محبت ہے۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی افغانیوں کاترانہ لکھا تھا جس کے بول تھے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘۔اس میں زور ہمارا پر تھا۔ افغانی لوگ ایک زمانے میں ہندوستان کو اسی طرح پسند کرتے تھے جیسے ہمارے ہاں لوگ امریکہ اور دبئی جانے کے لئے تڑپتے ہیں۔ اس ترانے کو لوگ ہندوستانی بچوں کا گیت کہہ کر غلطی کرتے ہیں کیونکہ اس میں آگے چل کر علامہ اقبال نے وضاحت کر دی ہے اور صاف بتادیا ہے کہ یہ نغمہ کوئی باہر سے آنے والا گارہا ہے۔ اقبال نے کہا
اے آبِ رودِگنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو
اتراترے کنارے جب کارواں ہمارا
ہندوستان اور افغانستان میں حکومتوں کی تبدیلی ایک ساتھ ہورہی ہے۔ امریکہ نے جو نیو ورلڈ آرڈر بنایا تھا اس میں وسط ایشیا کا تیل اور معدنی دولت کو افغانستان اور بلوچستان کے راستے لے جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ اس کے برعکس ہندوستان کو افغانستان میں یہ کہہ کر لایا گیا کہ وہ اس راستے وسط ایشیا کی منڈیوں تک رسائی حاصل کر لے گا۔ امریکہ نے ہندوستان کو الٹی گنگا بہانے کا پروگرام دیا تھا لیکن قدرت کے اصول کے تحت ہمیشہ دریاؤں کے ریلے پہاڑوں سے اتر کر میدانوں میں جاتے ہیں۔پاکستان کے لوگ اپنے اردگرد کے ملکوں میں انتخابات کے بعد ہونے والی صورت حال کا مشاہدہ کریں گے۔ امریکہ تو بہت جلد پتلی گلی سے نکل لے گا۔
نریندر مودی اندر اور باہر سے ایک ہی شخص ہے۔ وہ باہر سے بھی نریندر مودی ہے اور اس کے اندر بھی ایک نریندر مودی بیٹھا ہوا ہے جو کھل کر کہتا ہے کہ میں کون ہوں۔ بابری مسجد کو شہید کرنے میں اس نے ہراول دستوں کی قیادت کی۔ اس کے برعکس کانگریس پارٹی والے بدن پر تو سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے رکھتے تھے لیکن ہر ایک کے اندر نریندر مودی بیٹھا ہوتا تھا۔ ہندوستان کے لوگوں نے کانگریس کے انداز کو ٹھکرا کر ایسے شخص کو بھاری تعداد میں ووٹ دیئے جو اندر سے بھی نریندر مودی اور باہر سے بھی نریندرمودی ہے۔1947ء سے اب تک ہندوستان پر زیادہ عرصہ کانگریس ہی حکمراں رہی ہے اس نے جو جو غلطیاں کی ہیں نریندر مودی کو ان کو مدنظر رکھنا ہو گا کیونکہ اگر وہ بھی ان غلطیوں کو دہرائیں گے تو پھر بھارتی انتخابات کے 17ویں حملے میں وہ بری طرح ٹوٹ جائیں گے۔ کانگریس کی غلطیوں میں سب سے بڑی غلطی پاکستان کے ساتھ دشمنی کا رویہ رکھنا تھا۔ مشرقی پاکستان پر کانگریس ہی نے بھارتی افواج سے حملہ کرایا۔ کانگریس نے کشمیریوں کو 67سال تک غلام بنائے رکھا۔ کشمیریوں کی غلامی کو ختم کرکے دنیا میں نام کمایا جاسکتا ہے۔ کانگریس نے امریکہ کے کہنے پر بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کو افغانستان میں داخل کردیا ہے۔ اب افغانستان سے جتنی جلدی نکلنے کی کوشش کی جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ کانگریس کے دور میں پورے ملک میں ہزاروں مسلم کش فسادات ہوئے۔ نریندرمودی کادامن بھی اس سلسلے میں داغدار ہے لیکن اب پورے ملک کا حکمران ہونے کے ناتے اسے اپنے دامن کے داغ دھونے کے ساتھ ساتھ اس بات کابھی خیال رکھنا ہوگا کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت امن وسلامتی کے ساتھ رہ کراپنے ملک کی وفادار اور حکومت کی حامی بن کر رہے اب اسے دنیا کو بتانا ہے کہ ایک ہندو ملک میں اقلیتیں کس طرح رہتی ہیں۔ نریندرمودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صنعت کاروں اور تاجروں کے پسندیدہ ہیں اور ان کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔ تاجر اور صنعت کار ہمیشہ امن چاہتے ہیں کیونکہ امن ہی میں ان کا بزنس چمکتا ہے اگر مودی پاکستان سے پرخلوص دوستی رکھ کرامن قائم رکھیں گے پانی اور کشمیر جیسے مسئلوں کوحل کردیں گے تو پھر بھارت کی معیشت بھی ترقی کرے گی اور پاکستان کی معیشت بھی پروان چڑھے گی۔ ایسا نہ ہوا تو پھر نریندر مودی17ویں انتخابات میں ایسے ہی ہوں گے جیسے اب کانگریس ہے۔