• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ماضی میں کئی سینما گھروں کے ساتھ لفظ تھیڑ بھی استعمال ہوتا تھا اور تھیٹر کو پنجابی زبان میں منڈوا کہا جاتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ آج جسے آپ ڈیفنس فیز 6کہتے ہیں اس کے قریب تھیٹر گائوں تھا۔ وہاں پر ایک تھیٹر تھا اس کے نام پر گائوں کا نام مشہور ہوگیا تھا۔ لاہور میں چلتے پھرتے سینما / تھیٹر کو منڈوا بھی کہا جاتا تھا۔ لاہور ڈیفنس کے قریب بڑے خوبصورت دیہات تھے اور ان کے نام بھی بڑے دلچسپ تھے۔ ان کے بارے میں آپ کو پھر بتائیں گے۔ بہرحال بریڈ لا ہال جس گورے انجینئر کے نام پر ہے اور جو یہاں پر ریلوے نظام بنانے کے لئے آیا تھا اس کو انگریزوں نے اس کی انقلابی سوچ کی بنا پر ہندوستان بدر کردیا تھا، اس کا پورا نام چارلس بریڈلا تھا۔ یہ ہال آج بھی اس کے نام پر ہے۔ لوگ اور لاہوریئے اس ہال کو انقلابی جلسوں اور تقریروں کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں یا پھر بھگت سنگھ کے حوالے سے بھی جانتے ہیں۔ حالانکہ اس بریڈلا ہال میں کئی تھیٹریکل کمپنیاں اپنے ڈرامے اور کھیل بھی دکھایا کرتی تھیں۔ کائوس جی کی پارسی تھیٹریکل کمپنی اور حبیب سیٹھ کی تھیٹریکل کمپنی یہاں پر بہت ڈرامے دکھاتے تھیں۔ امرتسر کی مشہور مغنیہ گوہر جان کی گانے کی محفلیں بھی اسی تاریخی ہال میں ہوتی رہیں۔ پھر یہ ہال انقلابی جلسوں کے لئے مخصوص ہوگیا۔لاہور میں ریلوے کے ناچ گھر برڈ انسٹی ٹیوٹ میں بھی ڈرامے ہوا کرتے تھے بلکہ ریلوے کے بعض ملازمین نے یہ ڈرامے خود تیار کئےاور پیش کئے۔ لاہور میں بمبئی کے بعد کئی تھیٹر کمپنیاں آگئی تھیں اور انہوں نے بڑے ڈرامے پیش کئے۔ اس دور میں اگرچہ خواتین کا تھیٹر جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا پھر بھی ڈراموں میں کوئی بے ہودگی نہیں ہوتی تھی۔ بے شمار معیاری ڈرامے پیش کئے گئے اور کسی بھی ڈرامے میں آج کی طرح جو کچھ تھیٹر میں ہو رہا ہے ، نہیں ہوتا تھا۔

لاہور میں اسٹیج ڈراموں کا مزاج 1970ء کے بعد خراب ہونا شروع ہوا تھا۔ ڈراموں میں ذو معنی فقرے، بغیر سکرپٹ کے ڈرامے اور پچھلے چند برسوں میں ڈراموں میں فحش ڈانس اور نازیبا حرکات اور دوران تھیٹر حاضرین کے ساتھ فحش کلامی اور فقرے بازی کی بھی روایت پڑ گئی تھی، پھر یہ دیکھیں کہ وہ تھیٹر جہاں پر فیملیز جایا کرتی تھیں یک دم وہ فیملیز غائب ہو گئیں۔ ڈراموں کے حاضرین اور شائقین ڈرامہ دیکھنے نہیں بلکہ اسٹیج اداکارائوں کی فحش کلامی اور ڈانس دیکھنے جانے لگے ۔ یہ ڈرامہ دیکھنے والے کوئی اور ہی لوگ ہیں جو ہر بے ہودگی اور گھٹیا پن کو پسند کرنے لگے۔ دوران ڈرامہ گندی حرکتیں بھی شروع کردی گئیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اسٹیج نے لوگوں کا مزاح خراب کیا یا حاضرین نےاسٹیج ڈرامہ کرنے والوں کو مجبور کیا کہ وہ اس طرح کے ڈرامے اور تھیٹر کو مارکیٹ میں لائیں۔ اس میں سب سے زیادہ قصور اس فنانسر کا ہے جو نہ تو ڈرامہ رائٹر ہے نہ اس کو تھیٹر کے آداب کا پتہ ہے اور نہ وہ تھیٹر کی تاریخ سے واقف ہے، وہ بس یہ چاہتا ہے کہ اس نے جو رقم لگائی ہے وہ راتوں رات ڈبل ہو جائے۔ خیر اب حکومت اور خصوصاً وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے اس طرف توجہ دی ہے اور اب تھیٹر پر اچھے کھیل دکھائے جائیں گے۔ اگر گورنمنٹ کالج، کنیئرڈ کالج، دیال سنگھ کالج، علامہ اقبال میڈیکل کالج، کوئین میری کالج آج بھی اپنے تعلیمی اداروں میں اچھےا سٹیج ڈرامے خود تیار کرکے دکھاتے ہیں تو عوامی تھیٹرز ہال میں ایسے ڈرامے کیوں نہیں پیش کئے جا سکتے۔

ایک زمانےمیں لاہور آرٹس کونسل الحمرا میں ڈاکٹر انور سجاد، نعیم طاہر اور کئی نامور ڈرامہ نگار اپنے ڈرامے پیش کرتے تھے جو خاندان کے ہر فرد کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ شاید لاہوریوں کو الحمرا آرٹس کونسل کی پرانی پیلی عمارت یاد ہو۔ ہم کئی مرتبہ اس کوٹھی نما عمارت میں گئے تھے عمارت کے شروع میں کارپورچ تھا اور بیک سائیڈ اور بائیں جانب فنکاروں کا میک اپ روم اور کپڑے تبدیل کرنے کے کمرے تھے اور ہال کے باہر پرانے زمانے کا اے سی پلانٹ جس میں لکڑی کی جالی پر پانی گر کر نیچے چھوٹے سے تالاب میں جمع ہوتا تھا اس اے سی کی ہوا اتنی صاف خوشبودار اورٹھنڈی ہوتی تھی کہ باقاعدہ ٹھنڈ لگتی تھی۔ ایسے ایئر کنڈیشنر اس زمانے میں ہر سینما گھر کے باہر لگے ہوتے تھے۔ یہیں پر کبھی پاکستان ٹیلی ویژن کے اسٹوڈیو ٹینٹ لگا کر بنائے گئے تھے۔ یہ وہ تاریخی جگہ ہے جہاں بڑے نامور لوگ آئے۔ نعیم طاہر جن کی عمر اس وقت اسی سال سے زیادہ ہے اور ماشا اللہ حیات ہیں ان سے اسٹیج کے حوالے سے بہت مفید مشورے لئے جا سکتے ہیں۔ نعیم طاہر، سید امتیاز علی تاج کے داماد ہیں اور نعیم طاہر کی اہلیہ یاسمین طاہر بھی ماشا اللہ حیات ہیں، بڑی کمال کی براڈ کاسٹر تھیں، فوجی بھائیوں کا پروگرام ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک مدت تک پیش کرتی رہیں اس کی میزبان تھیں۔ ارے بابا آپ ان کالجوں کی ڈرامیٹک سوسائٹیز سے رابطہ کریں اور ان کے ساتھ مل کر خوبصورت اسٹیج ڈرامے کریں۔ کنیئرڈ کالج کے ڈرامے کو دیکھنے کے لئے لوگوں کو جگہ نہیں ملتی تھی اورڈرامے کے دعوت نامے تو سفارش پر بھی نہیں ملتے تھے۔ ہم آج بھی ہر سال کنیئرڈ کالج کا ڈرامہ دیکھنے جاتے ہیں۔ مجال ہے پچھلے چالیس برسوں میں کنیئرڈ کالج کے ڈرامے کا معیار گرا ہو اور لباس غیر معیاری اور مکالمے غیر شائستہ ہوں۔ آج بھی کنیئرڈ کالج کا ڈرامہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم عظمیٰ بخاری کو کہتے ہیں کبھی بھول کر گورنمنٹ کالج اور کنیئرڈ کالج کے اسٹیج ڈراموں کو ضرور دیکھیں، اگر انہیں فرصت مل جائے۔

لیں جناب آج کل بسنت کی تیاریاں جاری ہیں حکومت 2026ء فروری میں بسنت منانے کی تیاری کر چکی ہے اس سلسلے میں بڑے میاں صاحب، وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف اور کامران لاشاری بڑی زور دار میٹنگیں کر رہے ہیں۔ ان میٹنگوں میں شریک تمام ممبران بڑی اچھی اور مثبت تجاویز بھی دے رہے ہیں اور ہر پہلو کا جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ بسنت کا خوبصورت تہوار جسے لاہورمیں تہواروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اچھے ماحول میں ہو سکے اور لوگ واقعی اس سے لطف اندوز ہوں۔ ماضی میں لوگ کہا کرتے تھے ’’آئی بسنت پالا اڑانت‘‘ یعنی بسنت آئی اور سردیاں چلی گئیں۔ پتنگ بازی سے لوگوں نے بہت مفید کام لئے ہیں اور اس کی بڑی دلچسپ تاریخ ہے آپ کو آئندہ بتائیں گے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین