• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین! آپ کو بتاتا چلوں کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت نے جس ڈھٹائی اور بلاثبوت اس دہشتگردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا اور اسکے ساتھ ہی جنگ کا ماحول گرماتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کرکے انہیں واپس بھجوانے سمیت پاکستان کیخلاف جو جارحانہ اقدامات کیے اور بھارتی میڈیا نے پاکستان کیخلاف زہر ناک پروپیگنڈے کا آغاز کیا، اس سے ہی خطے میں امن و امان کی صورتحال مزید کشیدہ ہوئی۔ چنانچہ اس صورتحال پر پڑوسی ممالک کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک کا بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہونا فطری امر تھا۔ یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ بھارت اپنی شروع دن کی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کیخلاف جنگی مہم جوئی کا آغاز کرتا ہے، بھارت کی جانب سے چھیڑی گئی یہ جنگ محض روایتی جنگ نہیں ہوگی بلکہ ایٹمی جنگ کی شکل میں تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرلے گی جس سے پوری دنیا کی تباہی نوشتہ دیوار ہو گی۔ چنانچہ اسی خطرے کو بھانپ کر اس خطے کی اور مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ممالک کی قیادتوں کے علاوہ امریکہ سمیت مغربی یورپی ممالک کی قیادتیں بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفارتی سطح پر پاکستان اور بھارت سے رابطے کر رہی ہیں۔ امریکی نائب وزیر خارجہ نے، جو پہلگام حملے کے وقت بھارت کے دورے پر تھے‘ وزیر اعظم پاکستان میاں شہبازشریف اور نائب وزیر اعظم محمد اسحاق ڈار سے ٹیلی فونک رابطے کئے اور دونوں ممالک میں قیام امن کیلئے امریکی کردار کی پیشکش کی۔ اسی طرح یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس نے بھی دونوں ممالک کی قیادتوں سے رابطے کرکے ثالثی کی پیشکش کی جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے خود بھی سفارتی سطح پر دنیاکے مختلف ممالک اور نمائندہ عالمی اداروں سے رابطے کرکے بھارت کی پیدا کردہ کشیدگی پر انہیں پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ برادر مسلم ممالک کے سفرا کی جانب سے بھی اسی حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا اس امر پر قائل ہے کہ خطے کی حالیہ کشیدگی اور پاکستان بھارت جنگ کی فضا بھارت کی ہی پیدا کردہ ہے جس نے جلدبازی اور جنگی جنون میں یکطرفہ اقدامات کر کےدنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ سفارتی سطح پر ہونے والی پے در پے ناکامیوں کے باعث بھارت اپنے جارحانہ رویے اور طرز عمل سے رجوع کرتا نظرآرہا ہے‘ اسکے باوجود پاکستان کی سیکورٹی فورسز دفاع وطن کا ہر تقاضا نبھانے کیلئے مکمل تیار اور چوکس ہیں اور سیاسی و عسکری قیادتوں اور اداروں سمیت اس وقت پوری قوم متحد ہو کر اپنے وطن کے دفاع اور اسکی عزت و عظمت کی پاسداری کر رہی ہے۔ ملک کی مسلح افواج ہر محاذ پر متحرک ہو چکی ہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادتیں باہم مل کر دفاع وطن کی تیاریوں کا جائزہ لے رہی ہیں۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر روزانہ کی بنیاد پر اگلے مورچوں کا دورہ اور جنگی مشقوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔

منگل اور بدھ کی درمیانی شب بھارت کی جانب سے پاکستان کے شہروں پر میزائل حملے 2 جوہری قوتوں کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کی ایک دانستہ کوشش تھی جسے پاکستان کی قومی و عسکری قیادت کے متحمل مزاجی اور ذمہ دارانہ ردِعمل نے ناکام بنا دیا۔ بھارت کی جانب سے پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر میں 6مقامات پر 24میزائل فائر کیے گئے جن سے 31افراد شہید اور 57 زخمی ہو گئے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے رات کے اندھیرے میں کیے گئے اس بزدلانہ حملے کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے3رافیل سمیت 5جنگی طیارے اور کومبیٹ ڈرون سمیت 29ڈرونز مار گرائے اور بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔ دیگر حملوں میں اُڑی میں بھارتی فوج کا بریگیڈ ہیڈ کوارٹر6 مہار بٹالین ہیڈ کوارٹرز اور مختلف چیک پوسٹیں بھی اُڑا دی گئیں۔ بعد ازاں بھارتی فوج نے ایل او سی کے4 سیکٹرز میں پوسٹوں پر سفید جھنڈے لہرا کر اپنی شکست تسلیم کی۔ اگر بھارت کے نام نہاد ٹارگٹس کا جائزہ لیا جائے تو احمد پورشرقیہ میں مسجد سبحان اللّٰہ ، مریدکے میں مسجد اُم القریٰ ‘ کوٹلی میں مسجد عباس اور مظفر آباد میں مسجد بلال کو نشانہ بنایا گیا جبکہ دیگر مقامات پر شہری آبادی پر گولہ باری کی گئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ مساجد پر حملے آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مودی ٹولے کو شاید یہ غلط فہمی تھی کہ پاکستان اس کی جارحانہ مہم جوئی کا مؤثر جواب نہ دے سکے گا لیکن افواجِ پاکستان بالخصوص پاک فضائیہ نے بہادری‘ شجاعت اور جوانمردی سے جس طرح بھارتی طیاروں کو دھول چٹائی ہے‘ اس نے پاکستانی افواج کی برتری کو ایک بار پھر ثابت کر دیا۔ بھارتی حملوں کے بعد اب پاکستانی قیادت نے واضح کیا ہے کہ اقوام متحدہ چارٹر کا آرٹیکل 51پاکستان کو یہ مکمل حق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے۔ ایک ارب ڈالر کے مالی نقصان کے باوجود بھارتی رویے میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آ رہی اور بھارتی قیادت اب بھی اشتعال انگیزی سے کام لے رہی اور مزید حملوں کا عندیہ دے رہی ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کشیدگی میں نہ پاکستان کا فائدہ ہے نہ بھارت کا‘ مگر محسوس ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی پاکستان کی امن کی کوششوں کو کمزوری پر محمول کر رہا ہے۔ پاکستانی قیادت بارہا مودی سرکار پر یہ واضح کر چکی کہ پرامن مذاکرات کے ذریعے باہمی مسائل کو حل کیا جائے اور خطے کو جنگ میں نہ دھکیلا جائے کہ اس کا نتیجہ کسی کیلئے بھی خیر بخش نہ ہو گا۔

تازہ ترین