میں آج قوم کی طرف سے افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود پہلگام واقعہ کے بعد پاک بھارت تنازع سے نمٹنے میں غیر معمولی جذبہ اور کارکردگی دکھائی اور جوابی کارروائی میں بھارت پر فتح ون میزائلوں کی بارش کرکے10بھارتی ایئر بیسز اور اربوں ڈالر کے دفاعی نظام S-400کو مکمل طور پر تباہ کردیا جبکہ پاکستان اور چین کے تیار کردہ جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے ہائپر سونک میزائلوں سے 1.5 ارب ڈالر مالیت کا بھارتی دفاعی اور سیٹلائٹ نظام جام اور کئی جنگی طیارے تباہ کردیئے جس نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس موقع پر بھارت کا فخر رافیل طیارے بھی کسی کام نہ آئے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو امریکہ سے جنگ بندی کی درخواست کرنا پڑی۔ اس پیشکش پر پاکستان نے دانشمندانہ طور پر رضامندی کا اظہار کیا اور مذاکرات کا راستہ اپنانے کو ترجیح دی جس میں آبی تنازعات اور کشمیر سمیت دیگر مسائل پر بات چیت ہوگی۔ پاک بھارت تنازع نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک قوم بنادیا اور قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں بھارتی حملے کی مذمت اور افواج پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ اس موقع پر تمام سیاسی جماعتوںکے قائدین شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دیگر رہنمائوں نے قوم اور افواج پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ پاک بھارت سیز فائر کرانے میں امریکہ، سعودی عرب اور ترکیہ پیش پیش رہے جبکہ روس اور متحدہ عرب امارات بھی پاکستان کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کئے جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی، واہگہ بارڈر کی بندش، ویزا سہولت ختم کرنے کے علاوہ سفارتی روابط محدود کردیئے گئے تھے جسکے جواب میں پاکستان کی جانب سے بھی شملہ معاہدے سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل، سرحد کی بندش، بھارت سے تجارت کی معطلی اور بھارت کیلئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی پابندی عائد کردی گئی جس سے بھارت کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔
قارئین! میں نے پاک بھارت تنازع پر قومی اسمبلی کے اجلاس کے پہلے روز اپنی تقریر میں بتایا تھا کہ بھارت نے پاکستان کو 3 محاذوں پر نقصان پہنچانے کی حکمت عملی تیار کی تھی۔ پہلے مرحلے میں پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنا، دوسرے مرحلے میں معاشی طور پر پاکستان کو کمزور کرنا اور تیسرے مرحلے میں دفاعی طور پر پاکستان کو تباہ کرنا تھا لیکن بھارت کو تینوں محاذوں پر بری طرح شکست ہوئی۔ سفارتی طور پر 3 درجن سے زائد ممالک جس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، ملائیشیا، آذربائیجان، ایران اور جرمنی بھی شامل ہیں، نے کشیدگی کم کرنے اور فوری جنگ بندی پر زور دیا اور پاکستان نے کم وقت میں وہ جنگی فتح حاصل کی جس نے پاکستان کو دنیا کے سامنے ناقابل تسخیر بنادیا۔ دوسرے مرحلے میں بھارت نے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں، جی ایس پی پلس کی معطلی اور FATF کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام دوبارہ شامل کرانے کی کوششیں کیں لیکن اللہ کے کرم سے بھارت کو بری طرح ناکامی ہوئی بلکہ 9مئی کو آئی ایم ایف نے 2.4 ارب ڈالر کے قرضے جس میں 1.1 ارب ڈالر EFF اور 1.3 ارب ڈالر کے ماحولیاتی قرضے شامل ہیں، کی منظوری دی۔ تیسرے مرحلے ،جس میں دفاعی طور پر پاکستان کو مفلوج کرنا تھا، پر دنیا نے بھارت کو شکست زدہ ، بے بس اور امریکہ سے سیز فائر کی درخواست کرتے دیکھا۔ جنگیں کبھی تنازعات کا حل نہیں ہوتیں بالآخر مذاکرات کی ٹیبل پر آنا پڑتا ہے لیکن اس دوران ملک معاشی طور پر بہت کمزور ہوچکا ہوتا ہے۔ موڈیز کی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاک بھارت تنازع کے پہلے مہینے اسٹاک ایکسچینج اور کیپٹل مارکیٹ سے 10سے 15 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کا انخلا، دونوں ممالک کی کرنسیوں کی قدر میں کمی، افراط زر اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ،جی ڈی پی گروتھ میں کمی متوقع ہے۔ غزہ اور یوکرین جنگ کی مثال ہمارے سامنے ہے جسکی تعمیر نو کیلئے کئی دہائیاں اور 57ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جنگی اخراجات سے نمٹنے کیلئے عوام پر نئے ٹیکسز لگائے جاتے ہیں جس سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں زرعی ممالک ہیں اور پانی کے تنازع کے باعث زراعت کے شعبے اور فوڈ سیکورٹی پر منفی اثرات پڑیں گے۔ بھارت دنیا میں دفاعی ساز و سامان خریدنے والا پانچواں بڑا ملک ہے جو اپنے دفاع پر90ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ گزشتہ سال بھارت کے دفاعی بجٹ میں 10فیصد اضافہ کیا گیا۔ اس کے برعکس پاکستان اپنے دفاع پر صرف 10ارب ڈالر خرچ کررہا ہے اور اس طرح بھارت کی دفاعی صلاحیت پاکستان سے 9گنا زیادہ ہے لیکن پاک افواج اور شاہینوں کے جذبے بھارت سے 100گنا زیادہ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی 87 گھنٹے کی جنگ کے دوران پاکستانی میڈیا نہایت ذمہ داری سے قوم کو لمحہ بہ لمحہ حالات سے آگاہ کرتا رہا۔ اس موقع پر میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان بالخصوص آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ قوم کو فتح مبارک ہو۔