• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کے IMF سے مجوزہ ٹیکس اقدامات کے کچھ اہم نکات شیئر

اسلام آباد (مہتاب حیدر) حکومت نے 2025-26 کے آئندہ بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مجوزہ ٹیکسیشن اقدامات کے کچھ اہم نکات شیئر کیے ہیں، جس میں مختلف انکم سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ 10 فیصد تک کم کرنا شامل ہے۔ اگر آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے کے مختلف انکم سلیب میں ٹیکس کی شرحوں میں مجوزہ کمی پر اتفاق کیا تو آئندہ بجٹ میں انہیں 50 ارب روپے تک کا ریلیف مل سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم اور پاکستانی فریق 2025-26 کے آئندہ بجٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے اس ہفتے 14 مئی سے 22مئی 2025تک مذاکرات کا آغاز کریں گے۔ تاہم، ابھی تک ملاقات کے مقام کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ معیشت کو فعال کرنے کے لیے، حکومت نے آئندہ بجٹ میں دی جانے والی ریلیف اقدامات کے نتیجے میں ہونے والے محصولات کے نقصانات کی تلافی کے لیے اضافی ٹیکس اقدامات کرنے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم آئندہ مذاکرات میں ان مجوزہ اقدامات پر تبادلہ خیال کرے گی۔ ذرائع کے مطابق، پاکستانی ٹیم یہ قائل کرنا چاہتی ہے کہ یہ اقدامات صرف اس خلا کو پُر کرنے کے لیے مذاکرات کے تحت کیے جا سکتے ہیں جو کچھ ریلیف فراہم کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوگا۔ مثال کے طور پر، تنخواہ دار طبقے کے معاملے میں ایف بی آر نے 50 ارب روپے کی ٹیکس شرحوں میں کمی کی تجویز دی ہے، تو یہ خلا دوسرے ٹیکس اقدامات کے ذریعے پُر کیا جائے گا۔ پہلے دس ماہ (جولائی تا اپریل) کے دوران، تنخواہ دار طبقے نے 450 ارب روپے سے زائد ٹیکس ادا کیے، جو کہ خوردہ فروشوں اور برآمد کنندگان سے کہیں زیادہ ہے۔ تنخواہ دار طبقے نے پچھلے مالی سال 2023-24 میں کل 368 ارب روپے ٹیکس ادا کیے تھے۔ پچھلے بجٹ کے موقع پر یہ بات بتائی گئی تھی کہ تنخواہ دار طبقے پر بڑھایا گیا ٹیکس بوجھ قومی خزانے میں اضافی 100 ارب روپے جمع کرے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر نے موجودہ مالی سال میں تنخواہ دار طبقے سے اضافی 225 سے 250 ارب روپے کی توقع کی ہے۔ اندازہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ جون 2025 کے آخر تک 550 ارب روپے ٹیکس ادا کرے گا۔ مڈل انکم کمانے والوں کے لیے ٹیکس کی ادائیگی میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا، خاص طور پر ان افراد کے لیے جن کی ماہانہ آمدنی 0.2 سے 0.3 ملین روپے کے درمیان ہے۔ انکم ٹیکس کی شرحیں 40 اور 45 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔ دس لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ تنخواہ لینے والے زیادہ آمدنی والے افراد کے لیے ان کی 40 فیصد ٹیکس کی شرحوں کے علاوہ 10 فیصد سرچارج عائد ہے، جو کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہے۔
اہم خبریں سے مزید