• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی آبادی ایک ارب سے زیادہ (ایک ارب چالیس کروڑ) ہے جبکہ پاکستان پچیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔ بھارت دنیاکی چوتھی بڑی فوجی طاقت کا حامل ملک ہے جبکہ پاکستان کا نمبر غالبا پندرھواں ہے۔ بھارت دفاع پر خرچ کرنے والا دنیا کاپانچواں بڑا ملک ہے جبکہ پاکستان اس فہرست میں بہت پیچھے ہے۔ 2024ء میں بھارت نے اپنےدفاع پر86ارب ڈالر خرچ کئے جبکہ پاکستان نے صرف سوا دس ارب ڈالر خرچ کئے۔ علاوہ ازیں بھارتیوں کی فعال فوج پندرہ لاکھ کے قریب ہے جبکہ پاکستان کی ساڑھے چھ لاکھ ہے۔ بھارت کے پاس کل 513لڑاکا طیارے اور پاکستان کے پاس تقریباً تین سو ہیں۔ اسی نوع کی برتری بھارت کو ہیلی کاپٹروں اور دیگر ہتھیاروں میں بھی حاصل ہے۔ بحریہ میں تو بھارت کی سبقت اور بھی زیادہ ہے۔ پروپیگنڈا جو اس دور کی جنگوں کا اہم ہتھیار سمجھا جاتا ہے میں بھی بھارت بہت آگے ہے۔ اس کے ٹی وی چینلز کئی سو ہیں ۔ سوشل میڈیا کو پاکستان میں اگر چند لاکھ افراد استعمال کرتے ہیں تو بھارت میں کروڑوں استعمال کرتے ہیں۔ معاشی لحاظ سے پاکستان کمزور ہے جبکہ بھارت اپنے آپ کو ایشیا کی سپر پاور گردان کر عالمی معاشی طاقت بننے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ وہ چین کو تو اپنے لئے ٹکر کا دشمن سمجھتا ہے لیکن پاکستان کو ترنوالہ بھی نہیں سمجھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے معاملے میں مودی غرور اور تکبر کے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا تھا لیکن ان کی طرف سے چھیڑی گئی لڑائی میں اللہ نے پاکستان کو فتح مبین سے ہمکنار کیا اور بھارت اپنے زخم چاٹتا رہ گیا۔

سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟۔ اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ تکبر کو تدبر نے شکست دی یا پھر ہتھیار، اخلاقی برتری کے آگے ڈھیر ہو گئے۔

یہ ایک ایسی لڑائی تھی جس میں پاکستان اخلاقی لحاظ سے بلندی کی پوزیشن پر فائز تھا۔ پاکستانی سول اور عسکری قیادت نے شروع دن سے تدبر کا ثبوت دیا۔ جب پہلگام کا واقعہ ہوا تو پاکستان نے اس کی مذمت کی۔ جب انڈیا نے الزام پاکستان پر لگا دیا تو پاکستان نے تحقیقات میں ہر قسم کے تعاون کی پیشکش کی۔ پھر بھی جب مودی لڑائی پر مصر رہا تو پاکستانی وزیر اعظم نے امریکہ یا کسی اور کی ثالثی میں تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔ پاکستانی قیادت نے سعودی عرب، ایران، یواے ای، چین، قطر، ترکی، آذربائیجان، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی رابطے رکھے اور انہیں بھارت کو جنگ سے باز رکھنے اور تحقیقات میں ہر طرح کے تعاون کا کہتی رہی۔ دوسری طرف مودی کسی بھی تجویز کو نہیں مان رہا تھا۔ ان کے میڈیا نے پہلے دن سے پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کی باتیں کیں اور مودی حکومت نے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ اس صورت حال نےپاکستان کو ایک برتر اخلاقی مقام دلوا دیا اور دنیا کی اکثریت جن کے بارے میں مودی کا خیال تھا کہ سب اس کے ہمنوا رہیں گے، میں اسرائیل کے سوا کسی ملک نے کھل کر بھارت کی حمایت نہیں کی۔ سعودی عرب، یواے ای اور ایران نے لڑائی ٹالنے کیلئے سفارتی کوششیں کیں لیکن غرور کے گھوڑے پر سوار مودی نے کسی کی نہ سنی۔ لڑائی کا آغاز ہندوستان نے پاکستان پر ہوائی جہازوں کے حملے سے کیا اور نصف درجن سے زائد سویلین مقامات کو نشانہ بنایا لیکن واپس جاتے ہوئے اپنے چھ جہاز پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں ملبے کا ڈھیر بنوا گئے جن میں فرانس کا رافیل جہاز بھی تھا۔ (رافیل اس وقت دنیا کا جدید ترین اور ناقابل رسائی جنگی جہاز سمجھا جاتا ہے۔ صرف امریکہ کا ایک جہاز اس سے آگے ہے) اس لئے نہ صرف بھارت نے انہیں خریدا تھا بلکہ فرانس میں اس کے خریداروں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ بھارت کا زیادہ تر تکیہ انہی جہازوں پر تھا اور جب پاک فضائیہ نے ان کو گرا دیا تو اس کے بعد بھارت کو پاکستانی حدود میں جہاز بھیجنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بھارت کی اس جارحیت کے جواب میں پاکستان نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ دوسرے دن اس نے پاکستان پر ڈرون طیاروں کی بارش کردی جن میں اسی (80) کے قریب گرا دیئے گئے۔ اس دوران پاکستانی عوام کا غصہ بڑھ رہا تھا اور وہ حیران تھے کہ ان کے ملک کی طرف سے جواب کیوں نہیں دیا جا رہا۔ اگلے دن بھارت طیاروں یا ڈرون کی بجائے لڑائی میں میزائل بھی گھسیٹ لایا۔ رات کی تاریکی میں اس نے پاکستان کے چار ہوائی اڈوں پر میزائل داغ دیئے جس سے پاکستانی فوجی قیادت کا صبر تمام ہوا۔ صبح سویرے کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان نے بیک وقت ایک درجن سے زیادہ بھارتی فضائی اڈوں کو میزائلوں کی بارش سے ملیامیٹ کردیا اور شاہینوں نے ایس 400دفاعی نظام کو بھی ناکارہ بنا دیا جسکے بعد پاکستانی سرحد سے متصل بھارت، پاکستانی شاہینوں کیلئے کھلا میدان بن گیا۔ ایس 400 میزائیل ڈیفنس سسٹم روسی ساختہ ہتھیار ہے جو امریکہ کے پیٹریاٹ میزائل کی طرح کام کرتا ہے۔ اس کو عام جہاز یا عام میزائل سے ناکارہ نہیں بنایا جاسکتا بلکہ وہ ملک میں آنے والے میزائلوں اور جہازوں کو خودکار نظام کے تحت میزائل فائر کر کے نشانہ بناتا ہے۔ رافیل کے علاوہ بھارت کو اس سسٹم کا بھی بہت زعم تھا لیکن ان کی اس وقت ہوائیاں اڑگئیں جب دیکھا کہ وہ سسٹم ناکارہ بنا دیا گیا ہے اور پاکستانی جہاز اور میزائل جس جگہ کو چاہے نشانہ بنارہے ہیں۔ پاکستان نے صرف چار گھنٹے میں بھارت کے چار روز کا قرض سود سمیت لوٹا دیا۔ چنانچہ پہلے دنیا بھارت کی منتیں کررہی تھی اور اب اس نے دنیا کی منتیں شروع کر دیں۔ مودی نے نائب امریکی صدر جے ڈی وینس سے مداخلت کیلئے رابطہ کیا چنانچہ امریکی وزیرخارجہ نے پاکستانی اور بھارتی حکام سے جنگ بندی کیلئے رابطے شروع کر دئیے۔ چنانچہ امریکی صدر ٹرمپ نے اسی روز عصر (پاکستانی وقت) کو ایک ٹویٹ میں یہ خوشخبری سنائی کہ دونوں ممالک جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ہیں اور تنازعات کے حل کیلئے کسی تیسرے ملک میں دونوں کے مذاکرات ہوں گے۔ تھوڑی دیر بعد پاکستانی اور بھارتی دفتر خارجہ نے بھی جنگ بندی کا اعلان کیا اور یوں وقتی طور پر یہ قصہ تمام ہوا۔ واضح رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے معاملے میں ماضی میں بشمول ڈونلڈ ٹرمپ جس نے بھی ثالثی کی بات کی ہے تو بھارت نے نہایت حقارت سے ٹھکراتے ہوئے یہ موقف اپنائے رکھا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ ہے لیکن اب خود بھارت نے امریکہ سے ثالثی کی درخواست کی۔

گزشتہ چند روز کے واقعات کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے تدبر کو جیت اور تکبر کو شکست ہوئی ہے اور اس سارے معاملے کا سبق اب ہمارے لئے یہ ہے کہ کہیں ہم تکبر میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ ہمیں کسی صورت ایسا اقدام نہیں کرنا چاہئے جو ہمیں جنگ کی طرف لے جائے۔ ہمیں اللہ نے سرخرو کیا ہے لیکن جنگ تباہی ہے۔ جنگ جس کے ساتھ بھی ہو اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ اس لئے غرور کا شکار ہونے کی بجائے ہم سب کو اپنے رب کے حضور سربسجود ہونا چاہئے اور اپنے گھر کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔

تازہ ترین