• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریعتِ محمدیﷺ میں قربانی کی عظمت و اہمیت

مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ

ارشادِ خداوندی ہے: ’’ وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاہَا لَکُمْ مِّنْ شَعَائِرِ اللہِ ‘‘ ترجمہ : ’’قربانی کے جانور اللہ تعالیٰ کے شعائر یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں ۔ ‘‘(سورۃ الحج : ۳۶ )

شعائر سے مراد : وہ علامات ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے شعائر ذکر فرمائے ہیں، جن میں بیت اللہ، صفا و مروہ کی پہاڑیاں، منیٰ، عرفات، مزدلفہ اور قربانی کے جانور ہیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺکی ذاتِ اقدس، قرآن کریم، اذان اور نماز بھی شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:’’وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ‘‘ترجمہ: ’’جو شخص اللہ کے ان شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ اس کے دل کے تقوے کی علامت ہے۔‘‘(سورۃالحج:۳۲)

محدث العصر حضرت علّامہ مولانا سیّد محمد یوسف بنوریؒ ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کی کتاب ’’ حجۃ الوداع و عمرات النبیﷺ ‘‘کی تقدیم میں لکھتے ہیں: ’’عبادات میں فریضۂ حج بیت اللہ الحرام ایک عجیب و غریب عبادت ہے، حج کیا ہے ؟ بارگاہِ قدس کی تجلّیات کا ایک روح پرور نظارہ ہے۔ 

ایک مومن قانت اپنی استعداد کے مطابق اس مرکز ِتجلّیات سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے، اس منبع ِانوار کے جلووں سے نورِ ایمانی پاتا اور اس چشمۂ فیضان سے غذائے روحانی کا سامان مہیّا کرتا ہے، غسل کرکے اور لباسِ مرگ پہن کر رضائے محبوب پر مرمٹنے کا عہد (احرام) باندھ لیتا ہے اور پھر عاشقانہ و والہانہ انداز میں نعرۂ توحید بلند کرتا ہے، کبھی محویت کے عالم میں بادہ پیمائی ، صحرانوردی اور آبلہ پائی کے ذریعہ دل مضطر کا سکون ڈھونڈتا ہے اور کبھی دیوانہ وار تلاشِ محبوب میں دیارِ محبوب کے چکر پر چکر لگاتا ہے۔ 

صفا، مروہ، منیٰ کے مراحل طے کرکے وادیٔ عرفات پہنچ جاتا ہے، جہاں حق تعالیٰ کی رحمت کی موسلادھار بارش ہوتی ہے اور اپنے ظرف و استعداد کے مطابق سیرابی حاصل کرتا ہے ۔ مزدلفہ و منیٰ میں نفس و شیطان کے مقابلے کے تمام مراحل طے کرکے اور نفحاتِ الٰہیہ سے سرشار ہوکر دیارِ محبوب کے آخری دیدار سے سرفراز ہوتا ہے اور دنیا و عقبیٰ کی سعادتوں سے مالا مال ہوکر وطن پہنچ جاتا ہے۔‘‘

سنن ِترمذی میں امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے مروی نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن اولادِ آدم کا کوئی عمل قربانی کےجانوروں کا خون بہانے سے بڑھ کر نہیں ہے۔‘‘ (أبواب الأضاحی عن رسول اللہﷺ، باب ما جآء فی فضل الأضحیۃ، حدیث نمبر : ۱۴۹۳ )

بعض صحابہ کرامؓ نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا: یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ قربانی تمہارے جدِ امجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے مزید عرض کیا: حضرت! قربانی کا ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی حاصل ہوگی۔ 

سائل نے مزید سوال کیا: حضور! بھیڑ، بکریوں کے جسم پر تو بہت زیادہ بال ہوتے ہیں، کیا ان تمام بالوں کے بدلے میں ایک ایک نیکی میسر ہوگی؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی حاصل ہوگی، خواہ کتنے ہی بال ہوں۔ (سنن إبن ماجہ ، أبواب الأضاحی ، باب ثواب الأضحیۃ ، حدیث نمبر : ۳۱۲۷ )

حضور اکرم ﷺکا یہ ارشاد بھی ہے کہ قربانی کے جانور کی ہر چیز یعنی بال، کھال، سینگ، پائے، خون وغیرہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے اور یہ تمام اشیاء قیامت کے دن حاضر کرکے میزانِ عمل میں وزن کی جائیں گی اور ان پر صاحبِ قربانی کو اجر ملے گا۔ (سنن ترمذی ، أبواب الأضاحی عن رسول اللہﷺ، باب ما جآء فی فضل الأضحیۃ، حدیث نمبر : ۱۴۹۳ )

خلاصہ یہ کہ قربانی کا عمل محض کوئی رسم نہیں، بلکہ یہ تو جان کا بدل، سنت ِابراہیمی اور بہت بڑے اجرو ثواب کا ذریعہ ہے۔ سورۃ الصافات میں یہ واقعہ اللہ تعالیٰ نے بیان کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کے لیے خواب کے ذریعے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کرنے کا حکم دیا، باپ نے بیٹے سے کہا: اے بیٹے! مجھے بذریعۂ خواب اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے، تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ سعادت مند بیٹے نے جواب دیا: ابا جی! جس کام کا اللہ نے آپ کو حکم دیاہے، وہ کر گزریں۔ میری طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوگی، آپ مجھے ان شاء اللہ ! صابر پائیں گے۔

چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلا دی، مگر اللہ تعالیٰ کو تو صرف امتحان لینا مقصود تھا، بچے کی جان لینا مقصود نہیں تھا، چنانچہ اللہ رب العزت نے آواز دی: اے ابراہیم! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ہے، یعنی خواب کے ذریعہ ملنے والے حکم کی تعمیل کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تو ذبح ہونے سے بچالیا اور اس کے بدلے جنت سے ایک جانور بھیج دیا، جس کے حلق پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھری چل گئی اور وہ ذبح ہوگیا۔

اس طرح گویا انسانی جان کے بدلے جانور کی قربانی کا طریقہ جاری ہوگیا، جو قیامت تک سنت ِابراہیمی کے طور پر انجام دیا جاتا رہے گا۔ ہر مسلمان کو سنت ِابراہیمی اور سنت ِمحمدی سمجھ کر محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے صحیح نیت اور ارادے کے ساتھ یہ قربانی کرنی چاہیے۔