’’....پوری دنیا میں اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کے ملکوں نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان اور افغانستان میں پاکستان کی عسکری برتری کے چرچے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے یہ ممالک ہمیشہ بھارت کے سیاسی سماجی سفارتی اور اقتصادی دباؤ میں رہے ہیں۔ اب وہ پاکستان کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں تو ان ممالک میں ہمیں اپنی سفارتی تجارتی سرگرمیاں بڑھانی چاہئیں۔ یہی وقت ہے جب وہاں بھارتی برتری کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ان گرمیوں کی چھٹیوں سے ہی آغاز ہو سکتا ہے کہ اب کے پاکستان کے متوسط اور متمول خاندان اپنی گرمیوں کی چھٹیاں دبئی یورپ امریکہ کے بجائے بنگلہ دیش سری لنکا نیپال مالدیپ وغیرہ میں گزاریں۔ یہی وہ موزوں وقت ہے جب ہم اپنے اندرونی تنازعات کو طے کر کے ایک مثبت اور مستحکم لائحہ عمل تشکیل دیں۔ سفارتی سطح پر کوشش کی جا رہی ہےکہ دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک پارلیمانی وفد بھیجا جائے۔ اس سلسلے میں ہماری درخواست ہوگی کہ قوم کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور یونیورسٹیوں تحقیقی اداروں سے مشاورت کے بعد فوری طور پر ایک ایسی جامع رپورٹ تیار کی جائے کہ پاکستان کا موقف کیا ہے، پاکستان کے مفادات کیا ہیں۔ بھارت کے جارحانہ عزائم 1947سے لے کر اب تک کیا رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں مسلسل سازشیں کی گئیں۔ اگر تلہ سازش کیس کا حوالہ بہت ضروری ہے۔ بلوچستان میں کلبھوشن کے حوالے سے مداخلت کی تفصیلات تیار کی جائیں۔ 1971کے المیے کے بعد انڈیا نے سندھ اور خاص طور پر کراچی کو اپنا ہدف بنایا تھا اسکے بعد کتنی دہشت گردی ہوئی ،کتنی ہلاکتیں ہوئیں، بم دھماکے۔ 1947سے اب تک انڈیا نے کشمیریوں کی خود مختاری اور حق رائے دہی کو کیسے دبایا ہے۔ وہاں کتنے شہید ہوئے۔ انسانی حقوق کیسے پامال کیے گئے اور کئے جا رہے ہیں۔ اور انڈیا میں حقیقی غربت اور پسماندگی کی تصویر کشی بھی کی جائے کہ دنیا کو اپنا لبرل تشخص دکھا کر جس طرح سرمایہ کاری حاصل کی جا رہی ہے وہ سب فریب ہے۔ بڑی آبادی اب بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ جن ملکوں میں ہم اپنا موقف پیش کرنے جا رہے ہیں انکے ہاں اپنا ایک جمہوری قانونی آئینی سسٹم ہے جس کے تحت وہ شہریوں کو زندگی کی آسانیاں فراہم کر رہے ہیں وہاں قانون کا نفاذ سب کیلئے یکساں ہے۔ عدالتیں آزاد ہیں، خود مختار ہیں۔ انتخابی نتائج نہیں بدلے جاتے۔ اسلئے وہاں اس قسم کے سوالات بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کیلئے بھی یہ وفد پوری تیاری کر کے جائے۔ خیال رہے کہ وہ ممالک بھی پوری تیاری کر کے بیٹھے ہونگے۔ انڈیا سفارتی طور پر انہیں پہلے ہی قائل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ یہ بھی ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ دوسرے ملکوں میں انڈین سفارت کار پاکستانی سفارتکاروں سے کہیں زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔ ہمیں تو اب یہ عسکری برتری حاصل ہوئی ہے وہ 1971سے اپنی برتری کے پھل کھا رہے ہیں۔ ہمارے محکمہ خارجہ کو بھی اپنی پاک فضائیہ کی طرح مہارت اور جاں بازی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سفارت خانوں سے باہر نکلنا ہو گا۔
پہلے بھی اعلی سطحی وفود جاتے رہے ہیں کشمیر کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور ارکان نے دور دراز ملکوں کے دورے کیے۔ کیا ان ملکوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے اپنا سفارتی عالمی اور اقتصادی اثر و رسوخ استعمال کیا؟ میں آج ایک اور اہم اور حساس خطے میں اپنی سفارتی سرگرمیوں کو تیز کرنے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو ان ملکوں کے مفاد کیلئے بھی ناگزیر ہے اور انڈیا اس سے بہت زیادہ پریشان بھی ہو سکتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ بہت دل جمعی سے کیا جائے تو انڈیا دباؤ میں بھی آسکتا ہے اور اسکے اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو بھی گزند پہنچ سکتی ہے۔ اکھنڈ بھارت کی زد میں صرف پاکستان ہی نہیں آتا اس سے بنگلہ دیش کے وجود کو بھی خطرہ ہے۔ مالدیپ، نیپال، سری لنکا اور بھوٹان کو بھی۔ کسی حد تک افغانستان کو بھی حتیٰ کہ سارک سے باہر ایران کو بھی اور ادھر برما کو بھی۔ اکھنڈ بھارت میں ارضیاتی طور پر انکے پیشکار زمین کی پرتیں ان علاقوں میں بھی موجود پاتے ہیں۔ بھارت کے اس نعرے اور علاقے میں تسلط کے خبط نے سارک رکن ممالک کو کبھی سر اٹھانے نہیں دیا اب بالکل صحیح سفارتی سیاسی عسکری وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی ریاست موجودہ حکمران میڈیا یونیورسٹیاں اس حوالے سے دباؤ بڑھائیں تحقیق کریں پاکستان سارک ملکوں سے اپنی تجارت اور اپنے سفارتی تعلقات بڑھائے۔ سب سے پہلے تو پاکستان کو افغانستان سے اپنے معاملات بہتر کرنے چاہئیں۔ بہت قدیم تعلقات ہیں اور اب افغانستان سارک تنظیم کا باقاعدہ رکن بھی ہے۔ تین کروڑ 75 لاکھ آبادی کے اس ملک سے ہماری تجارت نسبتاً بہتر بھی ہے گزشتہ برس پاکستانی برامدات ایک ارب ڈالر رہیں اور افغانستان سے درامدات 524ملین ڈالر لیکن دونوں ملکوں میں تعلقات معمول پر نہیں ہیں۔ دو کروڑ 96 لاکھ انسانوں والے نیپال کو پاکستانی برامدات تین ملین ڈالر اور نیپال کی برآمدات دو ملین ڈالر۔ ان میں بنگلہ دیش سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے 17کروڑ۔ اس سے ہماری برآمدات 690ملین ڈالر اور بنگلہ دیش کی 58ملین ڈالر سری لنکا کی آبادی دو کروڑ سے کچھ زیادہ اس کو پاکستانی برآمدات 322ملین ڈالر اور سری لنکا کی پاکستان کو برآمدات 165ملین ڈالر۔ مالدیپ کی آبادی بہت کم ہے پانچ لاکھ کے قریب اس سے ہماری برآمدات 11ملین ڈالر اور مالدیپ کی صرف 31ہزار ڈالر۔ بھوٹان بھی کم آبادی یعنی صرف 7لاکھ کا ملک ہے اس کو ہماری برآمدات صرف دو ہزار ڈالر اور بھوٹان سے صرف 67ڈالر یہ صورتحال یقیناً مایوس کن ہے مگر پاکستان کا محکمہ خارجہ، محکمہ تجارت اگر مجموعی لائحہ عمل تشکیل دیں تو ان ملکوں سے تجارت کر کے مختلف شعبوں میں اقتصادی تعاون بڑھا کر علاج معالجے کے معاملات میں انسانی مدد بڑھا کر ہمیں انڈیا کو محدود کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انڈیا نے سارک تنظیم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا کیونکہ وہ چاہتا ہی نہیں کہ دوسرے ملک بھی اقتصادی طور پر آگے بڑھیں۔ اس کے حکمران اپنی سیاسی بالادستی رکھنا چاہتے ہیں مالدیپ اور بھوٹان کو انہوں نے اپنا دست نگر بنایا ہوا ہے اور یہی معاملہ نیپال کے ساتھ بھی رکھا ہے بنگلہ دیش ،سری لنکا پر بھی وہ اپنا غلبہ کسی نہ کسی صورت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ برس کے واقعات نے انڈیا کے استحصال کو بے نقاب کیا ہے اور پاکستان سے کچھ تعلقات بہتر بھی ہوئے ہیں تو یہی مناسب وقت ہے کہ ان ملکوں میں پاکستان سرکاری طور پر سفارتی طور پر سیاحتی طور پر اپنے سرگرمی بڑھائے انڈیا کو تنہا کرنے کا یہ منصوبہ سب سے زیادہ موثر رہ سکتا ہے۔