پاکستان میں کاروباری طبقے کو معاون و مناسب ماحول کی بجائے ہمیشہ سرکاری محکموں کی جانب سے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ اس حوالے سے صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ بینک کی’’ایز آف ڈوئنگ بزنس رپورٹ‘‘ کے مطابق پاکستان کاروبار کرنے میں آسانیاں فراہم کرنے کے حوالے سے دنیا کے 190ممالک میں سے 108ویں نمبر پر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا ریگولیٹری ماحول کاروبار شروع کرنے اور چلانے کیلئے اتنا سازگار نہیں جتنا کہ دوسرے بہت سے ممالک میں ہے۔ اس حوالے سے جہاں کاروباری اداروں کو اپنے جائز کاموں اور یوٹیلیٹی سروسز کے حصول کے سلسلے میں سرکاری محکموں کی طرف سے خوامخواہ کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں ٹیکس وصول کرنے والے محکموں کے اہلکاروں کی ہراسمنٹ اور قانون سے ماورا اقدامات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ علاوہ ازیں ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے ایکسپورٹ انڈسٹری کو طویل عرصے سے سرمائے کی قلت سے دوچار کر رکھا ہے۔ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے حکومت نے کچھ عرصہ قبل فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ڈیجٹلائزیشن کا آغاز کیا تھا جس سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اب ٹیکس حکام کی جانب سے کاروباری اداروں کی ہراسمنٹ میں کمی آئیگی۔ تاہم چند دن قبل ’’ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025‘‘ کے اجراء نے ٹیکس دہندگان کی کسی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کی اٹیچمنٹ اور فروخت کے ذریعے ریکوری کیلئے ایف بی آر حکام کے اختیارات میں بے جا اضافہ کر دیا ہے۔ اس آرڈینس کے ذریعے عدالتوں کے اختیارات کو بھی محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کو اپنے قانونی حق اور ٹیکس حکام کے خلاف شکایات کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف کے حصول سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ملک کی تمام صنعتی، کاروباری اور تجارتی تنظیموں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے یہ آرڈیننس فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعتی و کاروباری حلقوں کا ماننا ہے کہ اس اقدام سے ناصرف پاکستان میں ہونے والی متوقع غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں پیدا ہونگی بلکہ اسکی وجہ سے مقامی صنعتی و تجارتی حلقے بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ آرڈیننس کے ذریعے عدالتی ریلیف کو غیر مؤثر بنا کر حکومت نے ایف بی آر کو لامحدود اختیارات دے کر ایک طرح سے ملک میں قانون کی حکمرانی کو کمزور کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے ٹیکس دہندگان کے قانونی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں اور انہیں ٹیکس حکام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومت کو یہ آرڈیننس فوری واپس لے کر سٹیک ہولڈرز سے فوری مشاورت شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ٹیکس ماہرین نے بھی اس آرڈیننس کے اجراء کو حکومت کی گڈ گورننس کی کوششوں پر سوالیہ نشان قرار دیا ہے۔ ٹیکس ماہرین کے مطابق ٹیکس وصولی کے نظام کو شفاف بنانے کی بجائے ٹیکس حکام کو اس طرح کے اختیارات دینا آئین اور قانون کے خلاف ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے متعارف کروائی گئی نئی ترامیم نے کاروباری حلقوں کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ یہ ترمیم عدالتوں کی طرف سے ماضی میں کئے گئے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے اور اس سے قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے اور ٹیکس دہندگان کے منصفانہ حقوق اور شفافیت کے حق کا تحفظ بھی متاثر ہوا ہے۔ حکومت رواں مالی سال کے بجٹ میں ہر طبقے پر ٹیکس میں تاریخی اضافہ کر کے پہلے ہی ٹیکس دہندگان کا کچومر نکال چکی ہے لیکن اب اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنا بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے آخری حد تک جانے پر تلی ہوئی ہے۔ ارباب اختیار شاید یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس آرڈیننس کے اجرا سے ٹیکس وصولیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ تاہم ماضی گواہ ہے کہ اس طرح کے امتیازی فیصلوں کے یکطرفہ نفاذ سے ٹیکس کے نظام پر لوگوں کا اعتماد مزید کم ہوا۔ اس سے ٹیکس کے نظام کی غیرجانبداری کو نقصان پہنچے گا اور حقیقی ٹیکس کی وصولی کے بجائے ٹیکس چوری کے رجحان کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لاہور ہائیکورٹ پہلے ہی انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے سیکشن 138اور سیکشن 140کے تحت کسی بھی ٹیکس کی وصولی کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے نوٹس کے اجراء کو لازمی قرار دے چکی ہے۔ علاوہ ازیں اس فیصلے میں ایف بی آر کو پیشگی اطلاع کے بغیر ٹیکس کی وصولی کیلئے زبردستی اقدامات کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے نئی ترامیم کے ذریعے ایف بی آر حکام کو ٹیکس دہندگان سے ٹیکس وصولی کیلئے بینک اکاونٹس اور جائیدادوں کی اٹیچمنٹ کے لامحدود اختیارات دے کر افسوسناک کام کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وجہ سے بھی تنقید کا نشانہ بن رہا ہے کہ ملک میں جب بھی معاشی حالات بہتر ہونے لگتے ہیں تو حکومت کی طرف سے کوئی نہ کوئی ایسا فیصلہ سامنے آ جاتا ہے جس سے معاملات دوبارہ خرابی کی جانب چل پڑتے ہیں۔ یہ آرڈیننس ایک لحاظ سے وزیر اعظم شہباز شریف کے اس ویژن کے بھی منافی ہے جسکے تحت ایف بی آر اور ٹیکس دہندگان میں براہ راست رابطوں کو کم کرنے کیلئے ڈیجیٹلائزیشن اور فیس لیس نظام متعارف کروایا گیا۔ اس لئے حالات کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت ٹیکس قوانین میں ترمیم کیلئے جاری کئے گئے حالیہ آرڈیننس پر نظر ثانی کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل مشاورتی کمیٹی تشکیل دے اور حتمی فیصلہ ہونے تک اس آرڈیننس پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔