• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف تذبذب میں مبتلا، عمران خان خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں

اسلام آباد : (انصار عباسی)…سابق وزیر اعظم عمران خان کے تبدیل ہوتے سیاسی موقف اور متضاد بیانات نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کو الجھن، مایوسی اور تقسیم میں مبتلا کر دیا ہے کہ جیل میں بند بانی چیئرمین اور مشکلات کا شکار پارٹی کیلئے سیاسی ریلیف کیسے حاصل کیا جائے۔ 

میڈیا رپورٹس کے مطابق، منگل کو اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم نے عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کے راستے کھولنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ 

انہوں نے پارٹی کو اعلیٰ حکام کے ساتھ مذاکرات کے امکانات تلاش کرنے کیلئے ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ تاہم، ساتھ ہی عمران خان نے واضح سرخ لکیر کھینچتے ہوئے کہا کہ حکومت یا حکمران جماعت نون لیگ کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ 

اس کے باوجود، بمشکل 24 گھنٹے ہی گزرے تھے کہ عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دیے جانے کے اقدام پر تنقید کی۔ بدھ کو عمران خان سے جیل میں ملاقات کرنے والی ان کی بہنوں کے مطابق، پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے طنزاً کہا کہ جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بننے کے بجائے خود کو ’’بادشاہ‘‘ قرار دے دینا چاہئے تھا۔ 

اس تازہ تبصرے نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں میں مایوسی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر رہنما نے سوال اٹھایا کہ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ ترین قیادت پر اس طرح کھلے عام تنقید کرتے رہے تو اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے ساتھ کیوں بات کرے گی اور بامعنی مذاکرات کیسے ممکن ہونگے؟ 

پارٹی کی الجھن میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب عمران خان کی بہن علیمہ خان نے میڈیا کو عمران خان کے تنقید سے پُر بیان سے آگاہ کیا لیکن اس سے پہلے ہی پارٹی چیئرمین بیریسٹر گوہر علی خان فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دیے جانے پر جنرل عاصم منیر کو مبارکباد پیش کر چکے تھے۔ 

پی ٹی آئی کے ایک مایوس رہنما نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ہمارے طرز عمل میں کوئی ہم آہنگی نہیں، ایک دن عمران خان ہمیں ایک بات کہتے ہیں، اگلے دن کوئی مختلف بات کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ سیاسی مضمرات سے ناواقف اُن کی بہنیں عمران خان کے جذبات اور اشتعال کو میڈیا کے سامنے اسی طرح بیان کرکے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتی ہیں۔ 

ایک رہنما کے مطابق، ایسا کرنے سے ان کے اپنے بھائی کیلئے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے کچھ سینئر ارکان نے عمران خان کے تازہ ترین ریمارکس کے اثرات و نتائج پر غور کیلئے آپس میں رابطہ کیا اور مختلف خدشات کا اظہار کیا گیا کہ جب عمران خان کے موقف میں ہم آہنگی نہیں تو ایسی صورت میں پارٹی میں اندرونی سطح پر اتفاق رائے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 

گزشتہ ہفتے ایک دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی نئی پیشکش کے بعد پی ٹی آئی کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ لیکن، پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کی میٹنگ کے دوران ایک اور یو ٹرن لیتے ہوئے عمران خان نے دعویٰ کیا کہ یہ محض غلط فہمی تھی۔ 

انہوں نے واضح کیا کہ ان کا مقصد کبھی بھی یہ نہیں تھا کہ ان کی پارٹی نون لیگ کی اتحادی حکومت سے مذاکرات کرے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوں گے، حکومت کے ساتھ نہیں۔ 

پی ٹی آئی کے ایک ذریعے نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایسے حالات میں ہم کیا کریں، ہم پھنس گئے ہیں، ہمارا لیڈر ایک بات کہتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میرا مطلب وہ نہیں تھا، اور پھر اُن کے خاندان کے ارکان کے تبصرے جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ 

عمران خان کی قانونی مشکلات ختم ہونے اور سیاسی تنہائی جاری رہنے کے ساتھ، پارٹی کا اندرونی خلفشار غیر یقینی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی آگے بڑھنے کا متفقہ راستہ طے کر سکتی ہے یا عمران خان خود اس کی اجازت دیں گے۔

اہم خبریں سے مزید