کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق نے اپنے پینل کے سامنے سوال رکھا کہ کیا اقوام متحدہ کی کانفرنس فلسطینی ریاست کا نیا موڑ بن سکتی ہے؟ جواب میں تجزیہ کار بینظیر شاہ ، آصف بشیر چوہدری، مظہر عباس اور فخر درانی نے کہا کہ مغربی دنیا کی فلسطین سے متعلق پالیسی میں مثبت تبدیلی آ رہی ہے جو خوش آئند ہے، اس کانفرنس کا اثر یقیناً فلسطین کے لیے مثبت ہوگا۔ کانفرنس میں سب کی نظریں فرانس پر ہیں۔ اگر فرانس فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے تو برطانیہ بھی یہی قدم اٹھا سکتا ہے۔ دونوں ممالک جی۔سیون کا حصہ ہیں اور ان کے فیصلے دیگر مغربی ممالک پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس عمل سے اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔ جب تک امریکی قیادت یہودی لابی کے زیرِ اثر رہے گی، تب تک اس قسم کی کانفرنسوں سے بڑی امیدیں وابستہ کرنا مشکل ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اقوام متحدہ کی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کر سکتی ہے جس کے باعث فرانس سمیت کسی بھی ملک کی کوشش کا فوری اثر متوقع نہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سب کچھ تباہ کرنے کے بعد اگر فلسطینی ریاست بنا بھی دی جائے تو وہ کس کام کی ہوگی؟۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اس سے متعلق مظہر عباس نے کہا کہ یہ ٹرمپ کی عدالت ہے اور یہ بالکل غیر معمولی ہے اور ان چیزوں کو دنیا سمیت امریکہ میں بھی نوٹس کیا جارہا ہے۔ضروری ہے تمام ممالک مل کر کسی نہ کسی سطح پر اس بات پر غور کر کے کوئی نتیجہ نکالیں۔ تجزیہ کار بینظیر شاہ نے کہا یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اسرائیل پر اندر اور باہر تنقید بڑھتی جارہی ہے۔