آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیرِ اہتمام 3 روزہ ’آرٹس المنائی فیسٹیول 2025ء‘ فن کی تمام جہتوں کے رنگ بکھیرتے ہوئے اختتام پزیر ہو گیا۔
اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ 3 دن کے فیسٹیول میں نوجوان نسل نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ان کا جوش و جذبہ قابلِ دید تھا، بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آرٹس کونسل کی اکیڈمیز کے یہ فنکار اپنی اپنی فیلڈ میں ماہر ہو چکے ہیں۔
محمد احمد شاہ نے کہا کہ کامیاب فیسٹیول کے انعقاد پر آرٹس کو نسل کی پوری ٹیم کو مبارک باد دیتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے خوش رہنے کی فیکٹری کھولی ہوئی ہے، اس فیکٹری میں ہماری پراڈکٹ ماہر فنکار ہیں۔
آرٹس کونسل کے صدر نے کہا کہ جب میں نے آرٹس کونسل کی باگ دوڑ سنبھالی یہاں کچھ نہیں تھا، ایک ٹیچر سے ہم نے تھیٹر اکیڈمی شروع کی پھر میوزک اور ڈانس اکیڈمی بنائی۔
اُن کا کہنا تھا کہ آج تمام اکیڈمیز پھل پھول رہی ہیں، ہمارا آرٹ اسکول پاکستان کا پہلا آرٹ سکول تھا، 1964ء کے بعد اس آرٹ اسکول کو دوبارہ سے کھولا۔
محمد احمد شاہ نے کہا کہ پاکستان کی ٹاپ گیلریز میں ہمارے نوجوان مصوروں کا کام نمائش کے لیے لگتا ہے، بڑے بڑے لوگ ان کی پینٹنگ مانگ رہے ہیں، ہمیں ان کے بارے میں ابھی اور سوچنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے میوزک کے بچے بہت اچھے ہیں، پورے پاکستان میں پرفارم کرتے ہیں، دنیا بھر کے فیسٹیولز میں بھی ہم جا کر پرفارم کرتے ہیں۔
صدر آرٹس کونسل نے کہا کہ ہم نے فیسٹیول کو شہداءکے نام کیا اور پاک بھارت جنگ کے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کر کے پاک فوج کی کامیابی کا جشن منایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 10 سال پہلے ایک پہلا اوپن ڈانس فیسٹیول کیا، جس پر لوگوں نے بہت ڈرایا، کوئی ادارہ رقص کے پروگرام نہیں کراتا تھا، ڈانس بھی آرٹ کی جہت ہے، ڈانس ایک مکمل آرٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں فحاشی اور عریانیت کو فروغ نہیں دے رہا، کیا لوگوں کو خوش رہنے کے کاحق نہیں؟ خوش رہنے پر کیوں قدغن لگاتے ہو؟
فیسٹیول کے آخری روز ٹین نیسی کا لکھا ہوا ڈرامہ پیش کیا گیا جبکہ معروف ٹی وی ڈائریکٹر، پروڈیوسر و اداکار خالد احمد کی ’وائس ورکشاپ‘ میں عوامی تقریر، اداکاری، تدریس اور میزبانی کے بارے میں گفتگو کی گئی۔