• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف پیر کو ترکی کا دورہ مکمل کرکے ایران پہنچے،جہاں انہوں نے خطے کی موجودہ صورتحال اور دوطرفہ تعلقات کے اہم پہلوئوں پر پہلے صدر مسعود پزشکیان ،اور بعد میں رہبراعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات میں تبادلہ خیال کیا۔وزیراعظم نے ایرانی صدر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیااور غیرملکی خبررساں ایجنسی کو انٹرویو دیا۔وزیراعظم نے بھارتی جارحیت پر ایران کی جانب سے پاکستان کی حمایت اور ثالثی کی پیشکش کا شکریہ ادا کیااور اس عزم کو دہرایا کہ پاکستان،بھارت سے تجارت ،دہشت گردی،پانی اور جموں وکشمیر کے مسئلے پر سنجیدہ مذاکرات کیلئے تیار ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات کے ذریعے خطے میں امن کیلئے ہمسایوں کے ساتھ تنازعات کا حل چاہتے ہیں،لیکن اگر جارحیت کا راستہ اختیار کیا گیا تو اپنے ملک اور علاقائی سالمیت کا پوری قوت سے دفاع کریں گے۔انہوں نے ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بڑھانے اور تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا عزم ظاہر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان،ایران کے ساتھ تجارت کو دس ارب ڈالر تک لے جانے کی خواہش رکھتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ باہمی مشاورت کے ذریعے پاک ایران پائپ لائن منصوبہ جلد از جلد مکمل کرنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایران ہمارا دوسرا گھر ہے۔دونوں بھائی اور ہمسایہ ممالک امن،ترقی اور علاقائی استحکام کیلئے مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔پاک ایران مضبوط اقتصادی تعلقات پورے خطے کیلئے فائدہ مند ہیں۔شہباز شریف نے غزہ کی صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ خطے میں فوری اور دیرپا جنگ بندی کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اس موقع پر کہا کہ خطے میں پائیدار سیکورٹی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات پاکستان اور ایران کی مشترکہ پالیسی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری مشترکہ سرحد پر کوئی دہشت گردی نہیں ہونی چاہئے۔وزیراعظم نے ایرانی صدر کو جلد دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی۔ایران کے دورے میں وزیرخارجہ اسحاق ڈار ،آرمی چیف فیلڈمارشل عاصم منیر ،وفاقی وزرا اور حکام وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔وزیراعظم کے ہمسایہ ممالک ترکیہ اور ایران کے دورےغیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔وزیراعظم اس کے بعد وسط ایشیائی ممالک کا بھی دورہ کریں گے،جبکہ ایک اور بڑاوفد بلاول بھٹو کی زیرقیادت امریکا اور یورپی ممالک جانے والا ہے۔وزیرخارجہ اسحاق ڈار اسی سفارتی مہم کے سلسلے میں چین جائیں گے۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان کے خلاف جارحیت کے ارتکاب اور دوسرے معاندانہ اقدامات کو سرد جنگ کی نئی شکل قرار دیا ہے،جو نہ صرف جنوبی ایشیا،بلکہ عالمی امن کیلئے بھی انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔پاک فوج نے انتہائی دانشمندانہ جنگی حکمت عملی کے تحت بھارتی جارحیت کو جس طرح ناکام بنایا اور اس کی فوجی تنصیبات تباہ کیں،بھارت کی ہندوتوا حکومت اس سے کوئی سبق نہیں سیکھ رہی اور بھارتی لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات سے لگتا ہے کہ وہ جنگ بندی کے دوران پاکستان کے خلاف نئی جارحیت کا پلان بنارہے ہیں۔ایسی صورتحال میں پاکستانی قوم اور فوج ہمہ وقت کمربستہ ہے۔عالمی برادری کو بھی حالات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہئے اور بھارت پر متنازعہ مسائل کے منصفانہ حل کیلئے دبائو ڈالنا چاہئے۔اس سے پہلے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے خطرے سے دوچار ہوجائے،عالمی برادری کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر متحرک ہوجانا چاہئے۔

تازہ ترین