• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی سولہ برس پہلے میں اسلام آباد کے ایک علمی اشاعتی ادارے سے وابستہ تھا کہ ایک ازبک پروفیسر تاش مرزا میرے پاس آئے، تاش، کے لفظ پر مجھے مسکراتا دیکھ کر انہوں نے کہا کہ روسیوں کا دیا ہوا نام آپ کیلئے سمجھنا اور بولنا مشکل ہو گا البتہ میرا ازبک نام تاش، نہیں تو تش مرزا سمجھیں ۔ آپ کے پیش،رو فتح محمد ملک میرے دوست ہیں میں جب پاکستان میں آتا تھا تو وہ میرے لئے اسی دفتر میں قیام کی سہولتیں بھی دیتے تھے کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کے کام میں فراہم کرتے تھے میں نے کئی برس کی محنت سے روسی اردو/اردو روسی لغت تیار کی ہے تین ماہ مجھے ملک صاحب کے دور کی سہولتیں دیجئے تو آپ کے ادارے کیلئے ایک تحفہ پیش کرونگا ۔ جب قیام کے حوالے سے انہوں نے میرے چہرے پر ایک دو سوال دیکھے تو کہا کوئی بات نہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان میرے دوست ہیں وہ مجھے اپنے دفتر میں جگہ دے دینگے ۔پھر تاش مرزا نے یہ لغت تیار کر کے ہمارے حوالے کئے تو اشاعتی پروگرام کے انچارج عبدالرحیم خان نے مبارک باد دی اور کہا اسے کم از کم ایک ہزار کی تعداد میں چھپنا چاہئے۔ پھر جب ایسا، ہوگیا تو شاید عبدالرحیم خان رونی صورت بنا کے میرے پاس آئے اور کہا آپ خود سوچئے بازار میں اس لغت کی ایک جلد بھی بکنے کا امکان ہے؟ اس مشکل میں مجھے اپنے اس ادارے کے کھیون ہار ڈاکٹر عبدالقدیر نظر آئے وہ روزنامہ جنگ میں باقاعدگی سے کالم لکھتے تھے مجھے بھوپال، بھٹو ، غلام اسحاق خان اور اردو زبان جیسے انکے نرم گوشوں کا اندازہ تھا اسلئے جب ان سے گفتگو ہوئی تو میں نے کہا کہ یہ لغت ہمارے سائنس کے ان طالبعلموں کی مدد کریگی جو روس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرینگے ہماری وزارت خارجہ کیساتھ ان حکمرانوں کے کام آئیگی جو روس،کے دورے کرینگے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بچوں کی طرح ہنسے اور کہا آپ مجھے ایک سو کتابوں کا بل بھیج دیجئے میں آپ کو چیک بھیج دیتا ہوں آپ خود جہاں جہاں مناسب خیال کریں اسے بھجوا دیں۔ انکے التفات کے بعد میں کچھ اور ' چوڑا ' ہوا ایک سو کتاب اٹھا کے انکے دفتر میں لے گیا جب انہوں نے اپنے دفتر میں اس، لغت کی تعارفی تقریب کرائی اور ایک سو کتابیں میں نے تاش مرزا کو پیش کیں۔ وہ نظربند تھے مگر اس تقریب میں خوب چہکے تب وہاں ڈاکٹر محمد انور نسیم بھی تھے دو چار اور دوست بھی جنہوں نے اس وقت کلمات تحسین ادا کئے بعد میں ملامت کی کہ آپ جاپان رہے ہیں، ہیروشیما اور ناگا ساکی کے میوزیم دیکھے ہیں ۔وہاں ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے جھلسے ہوئے شواہد دیکھے ہیں اندازہ کریں اگر پاک بھارت جنگ میں ایٹم بم استعمال ہو ؟ ہیروشیما کا شہر اوساکا سے دور تھا مگر شاید اسکا میوزیم میں نے تین چار مرتبہ دیکھا وہاں پورے میوزیم میں جاپانی ماوں کی کرلاہٹیں سننے کو ملتی ہیں جنکے بچے اس دن لوٹ کر نہ آئے مگر انکے بستے ، چھاگل اور بوٹ کچھ کچھ سیاہ ٹکڑوں میں تھے جنہیں آنسو بہاتی ماوں نے شناخت کیا۔ مگر جاپانیوں نے اس’’ کربلا‘‘ کے آخر میں ایک تازہ پتہ محفوظ کیا ہوا ہے اس،نوٹ کیساتھ کہ ہمیں ماہرین نے بتایا تھا اس شہر میں آئندہ تیس برس تک درخت اسی طرح جلے ہوئے اور جھلسے ہوئے رہیں گےپر یہ پتہ ایک برس بعد ہیرو شیما کے ایک درخت پر اگا تو ہمارے لئے پیغام لایا کہ جنگ باززندگی کو مٹا نہیں سکتے۔ سو ہم مودی جی کو بھارت اور پاکستان کے مقبول ترین درخت کے پتے کے قائل کر سکیں گے یا نہیں۔

تازہ ترین