• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برِصغیر ہند میں دو قومی نظریے کی غیرمعمولی سیاسی اور تاریخی حیثیت رہی ہے۔ مسلمانوں نے اِس پر آٹھ صدیوں تک حکومت کی اور نہایت کشادہ اَور نفیس تہذیب و تمدن کو فروغ دیا۔ کھلے شہر تعمیر کیے اور باغات کے حسین و جمیل قطعات آباد کیے۔ اولیائےکرام اور مشائخِ عظام نے اسلام کی روشنی طول و عرض تک پہنچائی۔ مسلمانوں کے عہد میں ہندوستان کو ایک سپرپاور کا درجہ حاصل تھا۔ تب مغربی طاقتیں اُس کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے تجارتی کمپنیوں کی صورت میں داخل ہوئیں اور برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی چالبازی اور فتنہ سامانی سے اُسے اپنی کالونی بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ انگریزوں نے ہندو اکثریت کے تعاون سے مسلمانوں کی تہذیبی شناخت اور دِینی حیثیت ختم کرنے کی خاطر طرح طرح کے حربے استعمال کیے۔ سرسیّد احمد خاں وہ پہلے نابغۂ روزگار مفکر تھے جنہوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر جداگانہ انتخابات کا مطالبہ پیش کیا جسے انگریزوں کو۱۹۰۹ء کی آئینی اصلاحات میں شامل کرنا پڑا۔

جداگانہ انتخابات کا بنیادی مقصد مسلم اقلیت کے حقوق کی حفاظت اور اُس کی دینی حیثیت کا تحفظ تھا۔ حکیم الاُمت علامہ اقبال نے اپنے خطبۂ الہ آباد میں اِس عظیم حقیقت کو اوّلین اہمیت دی کہ مسلمان اقلیت کے بجائے حقیقی معنوں میں ایک جداگانہ قوم ہیں اور اِس بنیاد پر شمال مغربی ہندوستان میں ایک اسلامی ریاست کا قیام ازبس ضروری ہے۔ اِس ایمان افروز خطبے کے نتیجے میں محمدعلی جناح ہندو مسلم اتحاد کی فسوںکاری سے باہر نکل آئے اور اُن کی صدارت میں ۱۹۴۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے عظیم الشان اجتماع میں برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد وَطن کی متفقہ قرارداد منظور ہوئی۔ اِس سے قبل سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اپنی بے پناہ مؤثر تحریروں کے ذریعے متحدہ قومیت کے خلاف ایک علمی اور سیاسی محاذ قائم کر چکے تھے جس کا پرچار ہندو توا اَور نیشنل کانگریس کر رہی تھی۔ مسلم آزاد وَطن کے قیام کا بنیادی مقصد ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی پر قابو پانا تھا۔ اُن دونوں اقوام کا ہندوستان میں امن اور سلامتی کے ساتھ رہنا تقریباً محال ہو گیا تھا، چنانچہ اِس کا حل یہ پیش کیا گیا کہ ہندوستان کو تقسیم کر کے اِسے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بانٹ دیا جائے۔ اِس طرح وہ اَپنےاپنے وطن میں کسی خوف کے بغیر زندگی گزار سکیں گے اور فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بجھ جائے گی۔ جب مسلمان آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے منظم ہو گئے، تو کانگریس اور برطانوی حکومت کو پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا اَور ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو دنیا کی عظیم الشان ریاست وجود میں آ گئی۔

انگریز اور ہندو پاکستان کے سخت مخالف تھے، چنانچہ برِصغیر کی تقسیم اِس طرح عمل میں لائی گئی کہ مسلم اکثریت کے علاقے بھی بھارت کی تحویل میں دے دیے گئے اور جموں و کشمیر کی ریاست جس میں کشمیری مسلمان بھاری اکثریت میں تھے اور پورا علاقہ بھی پاکستان سے ملحق تھا، اُس کا الحاق جعلی طور پر بھارت سے کروایا گیا اور اِلحاق کی دستاویز کسی بھی آرکائیو میں موجود نہیں۔ بھارت نے طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کر لیا اور برطانوی جہازوں کے ذریعے اپنی فوجیں سری نگر میں اتار دِیں۔ یہ کھلی جارحیت اور اَقوامِ متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ اِس جارحیت کے خلاف پاکستان کے برطانوی سپہ سالار کو قائدِاعظم نے فوری کارروائی کا حکم دیا، مگر اُس نے معذوری کا اظہار کیا۔ اِس کے بعد بھارت اور پاکستان میں جنگ چھڑ گئی۔ پاکستان جیت چکا تھا، مگر بھارت نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پناہ لی جس نے سیز فائر کا فیصلہ دیا۔

قائدِاعظم نے مسلمانوں کی پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے پاکستان اِسی لیے حاصل کیا تھا کہ دونوں قومیں اپنے اپنے وطن میں امن سے رہ سکیں۔ اُن سے جب غیرملکی صحافیوں نے سوال کیا کہ پاکستان اور بھارت میں تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی، تو اُنہوں نے جواب دیا تھا امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات ہوں گے۔ دو قومی نظریے کا مطلب ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت اور دُشمنی کو ختم کرنا اور بقائےباہمی کو فروغ دینا تھا۔ بدقسمتی سے بھارت میں آر ایس ایس کا زور بڑھتا گیا جس کا نعرہ اکھنڈ بھارت کا قیام اور خدانخواستہ پاکستان کا انہدام تھا۔ اِس کے برعکس اسلام پوری دنیا کو اَللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور خیر اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کی دعوت دیتا ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر ۱۹۴۸ء کے بعد ۱۹۶۵ء میں سترہ رَوزہ جنگ بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنی۔ اُس وقت پاکستان کے اندر شدید محاذآرائی کا عالم تھا اور جماعتِ اسلامی ایوبی آمریت کے مظالم کا شکار تھی۔ قبل ازیں سیّد مودودی کو فوجی عدالت نے ’’مسئلۂ قادیانیت‘‘ لکھنے پر سزائےموت دے ڈالی تھی۔ اِس کے علاوہ۱۹۶۴ء میں حکومت نے جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی اور اُس کی پوری قیادت کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا، مگر جونہی ۱۹۶۵ء کی جنگ کا طبل بجا اور بھارت نے جارحیت کا کھلم کھلا ارتکاب کیا، تو مولانا مودودی آگے بڑھے اور حکومت کی اپیل پر ریڈیو پاکستان سے اپنے خطاب کے ذریعے پوری قوم کو بھارت کے خلاف متحد اور فوج کی پشت پر لا کھڑا کیا۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ برادرانِ اسلام! پچھلے چند روز سے ہندوستان کی فوجیں پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ یہ ایک زبردستی کی جنگ ہے جو ہم پر صرف اِس لیے ٹھونسی گئی ہے کہ ہم ریاست جموں و کشمیر کے مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔ اِس موقع پر مَیں آپ کو وہ فرض یاد دِلانا چاہتا ہوں جو اَیسے حالات میں اللہ اور اُس کے رسولؐ کی طرف سے ہر کلمہ گو پر عائد ہوتا ہے۔ قرآن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ہر وہ شخص اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہے جو داراِلاسلام کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں اپنی جان اور مال کی خیر منانے میں لگا رہے۔

یہ امر اطمینان بخش ہے کہ حالیہ بھارتی حملے کے فوری بعد امیر جماعتِ اسلامی جناب حافظ نعیم الرحمٰن نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی اتباع کی۔ اُنہوں نے جماعتِ اسلامی مارچ کی تمام سرگرمیاں معطل کر کے اُن کا رُخ پاکستان کی سالمیت، فوج اور حکومت کی بھرپور حمایت اور بھارت کے مقابلے میں پوری قوم کو یکسو اور متحد رکھنے اور پاکستان کی حفاظت کی طرف موڑ دیا۔ یہی مومنانہ فراست ہے۔

تازہ ترین