بین الاقوامی سیاست بدل رہی ہے، طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے، ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ آپ سب کے علم میں ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی ایشیامیں ہے اور ایشیا میں سب سے زیادہ آبادی جنوبی ایشیا میں ہے، سو یہاں چیزوں کی کھپت زیادہ ہے، یہاں کے ملک بڑی منڈیاں ہیں، یہاں کے چند ملک ٹیکنالوجی اور ہنر مندی میں بہت آگے ہیں۔ چین جیسا عظیم ملک ہمارا ہمسایہ ہے، چین نے معاشی میدان میں بڑی طاقتوں کو مات دے رکھی ہے، تجارت میں بھی چین آگے ہے، چین کا مال پوری دنیا میں بکتا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ چین جنگی ٹیکنالوجی میں بھی سب سے آگے ہے مگر سوال پھر وہی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اتنی بڑی تجارتی منڈیوں اور چیزوں کی کھپت میں پاکستان کا حصہ کہاں ہے؟ ہمیں اپنی صنعت کی طرف دیکھنا چاہیے، ساتھ ہی معدنیات اور زراعت کو بھی دیکھنا چاہیے، زراعت سے جڑی ہوئی چیزوں کو بھی دیکھنا چاہیے، اس بات کا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ ہمارا تجارتی حجم کیا ہے؟ اسے کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟ یہ سب کچھ سوچنے سے پہلے آپ اس بات پر غور کریں کہ پاکستان میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، پاکستان کے اناج گھر اور سب سے بڑے زرعی صوبے پنجاب میں کسان رل گیا ہے، اس کی بڑی وجہ کسان دشمن پالیسیاں ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ملک کے سب سے بڑے زرعی صوبے کے اقتدار پر زراعت پیشہ سیاستدان نہیں بلکہ صنعتکار مسلط ہیں۔ آپ آ جا کے چوہدری پرویز الٰہی کی مثال دیں گے کہ انہیں بھی تو اقتدار ملا مگر بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے کاغذات نامزدگی میں جب خود کو صنعتکار لکھا تو وہاں موجود ان کے وڑائچ جاٹ بھائی سہیل وڑائچ نے کہا کہ’’ چوہدری صاحب! آپ یہ ظلم نہ کریں، آپ کو کس نے صنعتکار ماننا ہے‘‘؟ اس پر چوہدری پرویز الٰہی کہنے لگے’’ میں ہوں ہی صنعتکار‘‘۔ جس پر سہیل وڑائچ نے کہا’’ آپ کا دیہی پس منظر ہے، آپ جاٹ ہیں، اس لئے آپ کاشتکار لکھیں‘‘۔ اس واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پنجاب کے اقتدار پر صنعتکار کس طرح قابض ہیں۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جن بابوؤں کا تعلق پنجاب کے دیہات سے ہے، وہ بھی کسان دشمن پالیسیوں پر گامزن ہیں۔ اگر پنجاب کا اقتدار کھیتوں، کھلیانوں سے محبت کرنے والوں کے سپرد ہوتا تو آج یقیناً نقشہ مختلف ہوتا مگر میں دکھ کی کہانی کیا سناؤں کہ ہمارے پنجاب میں پورا زور لگانے کے بعد فی ایکڑ گندم چالیس سے پینتالیس من ہوتی ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ گندم کی پیداوار ستر سے پچھتر من ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں گنا فی ایکڑ آٹھ سے دس ٹن ہوتا ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں گنے کی پیداوار اٹھارہ سے بائیس ٹن فی ایکڑ ہے۔ یہاں میں باقی فصلوں کا موازنہ نہیں کر رہا، ان کی پیداواری شرح میں بھی ایسا ہی فرق ہے۔ اگر ہمارے ہاں کسان دوست حکومتیں ہوتیں تو پیداواری شرح کہیں بہتر ہوتی۔ ہم دنیا کو زرعی چیزیں برآمد کر رہے ہوتے۔ پاکستان میں دنیا کا بہترین چاول ہے، چاول دنیا بھر میں کھایا جاتا ہے، ہم دنیا کے سامنے اپنی چیزیں بھی متعارف نہیں کروا پاتے، ہماری فصلوں پر کوئی توجہ نہیں، ہماری پھلوں پر بھی کوئی توجہ نہیں ورنہ آج پوری دنیا ہمارا ملتانی آم کھا رہی ہوتی۔ ہمارے پاس بہترین کینو تھا مگر اب سرگودھا کی زمین جواب دے گئی ہے، لاکھوں ایکڑ پر مشتمل باغات ضائع کر دیئے گئے ہیں۔ ہم نے ڈیری پر توجہ نہیں دی، ہم اپنے لوگوں کو خالص دودھ، مکھن اور گھی نہیں دے سکے۔ اگر کوئی سوچ ہوتی تو یقیناً پنجاب دودھ، مکھن اور گھی کی ضروریات نہ صرف پوری کرتا بلکہ دوسرے ملکوں کو برآمد کرتا۔ ہم نے بھیڑ، بکریاں اور مرغیاں نہ پال کر ظلم کیا، اگر یہ ظلم نہ ہوتا تو ہمارے ہاں گوشت سستا اور زیادہ ہوتا، ہم گوشت برآمد کر رہے ہوتے۔ حج سیزن سمیت پورا سال عرب ملکوں میں بھیڑ بکریاں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے آتی ہیں۔ کیا عربوں کی یہ ضرورت ہم نہیں پوری کر سکتے؟ قدرت نے ہمیں بیش قیمت معدنیات سے نوازا ہے مگر ہم ان معدنیات سے پوری طرح مستفید نہیں ہو رہے۔ ہمارے ہاں تو ہر جگہ ذاتی مفاد آ جاتا ہے، کاش ہم ذاتی مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے قومی مفاد کو ترجیح دیتے۔
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری دوسرے ملکوں سے کپاس منگواتی ہے حالانکہ ہمیں نہ صرف اپنی انڈسٹری کو بلکہ دوسرے ملکوں کو کپاس فراہم کرنی چاہیے، ہمارا خطہ کپاس کیلئےبہترین ہے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم زراعت سے جڑی انڈسٹری لگاتے، ہمارے پاس کل آبادی کا ستر فیصد یوتھ پر مشتمل ہے، بہت بد قسمتی کی بات ہے کہ ہم اپنی یوتھ کو استعمال ہی نہیں کر سکے، نہ انہیں کاروبار میں لا سکے نہ انہیں ہنر مند بنا سکے بلکہ ہم نے انہیں بیروزگاری کے سمندر کے حوالے کر دیا۔ اب بھی وقت ہے سوچیں! پاکستان کے حالات ایسے کیوں ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں ہر طرف لا قانونیت اور نا انصافی ہے، پاکستان میں جو نظام چل رہا ہے، اس میں قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ یہ نظام نا انصافی پر مشتمل دکھائی دیتاہے۔ اگر آپ پاکستان کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ نظام بدلنا ہو گا پھر کرپٹ مافیاز کو نکیل ڈالنا ہو گی۔
بقول اعتزاز احسن
نہیں ہے دعویٰ سخنوری کا، نہ حسن لفظوں کی کاٹ میں ہے
مگر کہاں وہ سخن شناسی جو اعتزاز ایسے جاٹ میں ہے