حالیہ ’’مدرسہ رجسٹریشن بل‘‘ جو حکومت اور مدرسہ عمائدین کے درمیان تنازع بنا ہوا ہے دراصل یہ پچھلے دو سو سال سے بنائی جانے والی پالیسیوں کی ایک تازہ ترین شکل ہے جو وقتاً فوقتاً مدارس کے حوالے سے تشکیل دی جاتی رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ پالیسیاں اور ان سے وابستہ بیانیہ حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں؟
یہ پالیسیاں ایک طویل عرصے سے اس مفروضے پر بنائی جا رہی ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں دو وجوہات کی بنا پر داخل کرواتے ہیں جن میں سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انکے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اور دوسری یہ کہ انکے پاس دیگر تعلیمی مواقع نہیں ہوتے۔ جیسے ڈان اخبار میں مورخہ 12 جنوری 2025 کو ایک مضمون میں کہا گیا کہ ’’ہزاروں مدارس غریب ترین گھرانوں سے آنے والے بچوں کو اسلامی تعلیم فراہم کرتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ مفت کھانا اور رہائش بھی مہیا کرتے ہیں۔‘‘ یوں ہی بزنس ریکارڈر میں مؤرخہ 1مارچ 2025 کو ایک مضمون میں لکھا گیا کہ’’مدارس کے طلبا کے پاس دیگر تعلیمی مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی کہ عمومی مفروضہ یہ ہے کہ والدین وسائل کی قلت اور اسکولوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سےاپنے بچوں کو مدارس میں بھیجتے ہیں۔ کیا یہ درست خیالات ہیں؟ ہماری تحقیق کے مطابق ملک کے نامور مدارس پر ان مفروضہ جات کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ہماری تحقیقی ٹیم میں لمز یونیورسٹی کے دو پروفیسر شامل ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق شعبہ اکنامکس سے جبکہ دوسرے کا تعلق شعبہ ایجو کیشن سے ہے جنھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اپنی ڈاکٹریٹ کی تحقیق کے دوران ایک سال مدرسہ میں گزارا۔ یہ ٹیم ملک کے دو مشہور مدارس دارالعلوم محمد یہ غوثیہ بھیرہ ضلع سرگودھا اور جامعہ نظامیہ رضویہ، اندرون لوہاری گیٹ، لاہور کے طلباء پر تحقیق کر رہی ہے۔ قبل ازیں بھی مدارس کے طلبا پر سروے ہوتے رہے ہیں لیکن ہماری تحقیق کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ان دو اداروں سے سال 2018میں فارغ ہونے والی مکمل جماعت پر تحقیق کر رہے ہیں جو 323 فضلاء پر مشتمل ہے۔ (تحقیق میں صرف ان فارغ التحصیل کو شامل کیا گیا ہے جنھوں نے کم از کم 4 سال جامعہ نظامیہ میں تعلیم حاصل کی ہو کیونکہ جامعہ نظامیہ میں بہت سے طلبا دوسرے اداروں سے آخری سال میں آتے ہیں) مزید یہ کہ ہمارے سروے میں جواب کی 90فیصد شرح تحقیقی لحاظ سے غیر معمولی ہے۔ ان دو وجوہات کی بنا پر یہ بر صغیر میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔
ان دو مستند اداروں سے متعلق ہمارے تحقیقی نتائج کے مطابق اگرچہ کچھ فضلا غریب گھرا نوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ گھرانے قومی اوسط سے زیادہ مستحکم دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر مویشی، کار ، ٹریکٹر وغیرہ کی ملکیت دولت مندی کی نشانی سمجھی جاتی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ گھرانے قومی اوسط سے زیادہ دولت مند نظر آتے ہیں۔ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 67فیصد فضلاء کے خاندان کے پاس اس وقت مویشی تھے جب انھوں نے اپنی اولاد کو مدرسہ بھیجنے کا فیصلہ کیا حالانکہ اُس وقت کے ہم عصر قومی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں یہ شرح صرف 41 تھی۔ اسی طرح ہمارے نتائج اس بات کی بھی تردید کرتے ہیں کہ مدارس کے طلبا کے خاندان تعلیم یافتہ نہیں ہوتے اور انکے پاس اپنی اولاد کیلئے تعلیم کے دیگر مواقع نہیں ہوتے۔ اعداد و شمار کے مطابق مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کے والدین پاکستان کی اوسط کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ فضلاء کے والد کی ثانوی تعلیم کی شرح پاکستان کی اوسط سے دو گنا جبکہ والدہ کی بنیادی تعلیم کی شرح قومی اوسط سے چار گنا زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ ان گھرانوں کے پاس اپنے بچوں کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجنے کے وسائل بھی ہیں اور وہ بھیجنا بھی چاہتے ہیں۔ نتائج کے مطابق ثانوی اور اعلیٰ دونوں سطح کی تعلیم میں فضلاء کے بھائیوں کی شرح قومی اوسط سے بلند ہے۔ 26 فیصد فضلاء کے بھائیوں نے ثانوی تعلیم حاصل کی، جبکہ یہ شرح پاکستان میں 10 ہے۔ اور 21 فیصد فضلاء کے بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، جبکہ قومی سطح پر یہ شرح صرف 6ہے یعنی کہ ان خاندانوں میں ثانوی تعلیم حاصل کرنے کی شرح قومی اوسط سے 2.5گنا جبکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لحاظ سے قومی اوسط سے 3 گنا زیادہ ہے۔
مختصر یہ کہ ایک لمبے عرصے سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مدارس میں پڑھنے والے غریب اور غیر تعلیم یافتہ گھرانوں سے ہوتے ہیں۔ ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ یہ بات ملک کے مستند اداروں کے حوالے سے درست نہیں ہے۔ مدارس صدیوں سے ہمارے معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مدارس کی صدیوں پرانی تاریخ کے باوجود انکے بارے میں ہماری معلومات بہت سطحی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بارے میں مزید تحقیق کی جائے تا کہ مدارس کے بارے میں اور خاص طور پر ملک کے معیاری مدارس کے حوالے سے اصل حقائق سامنے لائے جا سکیں اور آئندہ کیلئے پالیسی سازی اور سماجی بیانیہ مفروضوں کے بجائے حقائق پر مبنی ہو۔ اسی لیے ہم اپنی تحقیق کو جاری رکھ رہے ہیں اور دیگر اداروں کے اعداد و شمار بھی اکھٹے کر رہے ہیں۔ امید ہے یہ کام ضرور حقائق سے پردہ کشی کرے گا۔