قبرستان جیسی پتھریلی خاموشی کی زد میں سانس لیتی اس دنیا میں کہیں کہیں کوئی جرات مند آواز ڈاکٹر تانیہ حسن کی بھی ابھرتی ہےجو بی بی سی جیسے عالمی نشریاتی ادارے کے لائیو انٹرویو میں بیٹھ کر عالمی اور طاقتور گٹھ جوڑ کا حصہ بنے میڈیا کی اقدار پر کھلی تنقید کرتی ہیں۔ڈاکٹر تانیہ حسن ماہر امراض اطفال ہیں گزشتہ کئی مہینوں سے خان یونس اسپتال میں کام کر رہی ہیں انکے پاس جنگ کا ایندھن بننے والے بچے لائے جاتے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر یتیم ہو چکے ہیںیہ مظلوم فلسطینی بچے اپنا پورا پورا خاندان کھو چکے ہیں کوئی نہیں ایسا جو انہیں اس کرب میں گود میں لے گلے سے لگائے یہ لاوارث زخمی یتیم بچے دنیا سے پوچھتے ہیں ان کا قصور کیا ہے؟
وہ ڈاکٹر آلاالنجار کے دلخراش غم کی کہانی سنا رہی ہیں۔ ڈاکٹر آلا بچوں کے امراض کی ماہر ہیں ۔اس روز وہ اسپتال میں آن کال ڈیوٹی پر تھیں کہ ان کے گھر پر قیامت بیت گئی۔ ہولناک بمباری میں ان کے دس بچوں میں سے سات بچے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ شدید زخمی حالت میں بچوں کو ہسپتال لایا گیا وہ دم توڑ چکے تھے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر کی حیثیت سے ڈاکٹر آلا موجود تھیں، ڈھکے ہوئے زخمی بدن بچوں سے کپڑا ہٹاتی ہیں، سامنے ان کے اپنے سات لخت جگر موجود تھے جن کے بدنوں سے زندگی پرواز کر چکی تھی۔ بعد ازاں ان کے دو اور بچےبھی شہید ہو گئے۔ کربلا کی صابر ماؤں کے پیروکار ڈاکٹر آلاالنجارکے غم اور صبر کے سامنے میرا دل اور قلم دونوں ہار مان گئے ہیں کہ کچھ لکھ سکوں۔
عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر تانیہ جنگ کا ایندھن بننے والے بچوں کی بابت بات کرتی ہیں تو وہ ایک ایک لفظ ضبط کی پاتال سے چن کر لاتی ہیں۔ایک ایک لفظ کے پیچھے آنسو سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ضبط کے کس مشکل مرحلے سے گزر رہی ہیں بس ان کے آنسو نہیں بہہ رہے تھے پورا وجود ضبط غم سے لرزتے آنسوؤں میں ڈھل چکا تھا۔ یہ آواز اہل دل تک پہنچ رہی تھی۔ ڈاکٹر تانیہ حسن نے جرات اور درد مندی سے غزہ کے بچوں کا کیس بی بی سی پر پیش کیا۔ عالمی میڈیا سے وابستہ وہ پروفیشنل رپورٹر ایک روبوٹ کی طرح ہر جگہ ڈاکٹر تانیہ کی بات کو کاٹ دیتی تھی جب اس کو محسوس ہوتا کہ یہ بات اس عالمی نشریاتی ادارےکی پالیسی کے خلاف ہے۔
فلسطین کے لوگوں کا کیس ایک ایسے میڈیا پر پیش کیا جو خود ان عالمی طاقتوں کا حصہ دار ہے جو غزہ میں نسل کشی کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ان سے سوال کیا گیا کہ بطور ڈاکٹر ایک چیز جو اسپتال کے سارے سسٹم کو بہتر کرنے کیلئے ہو سکے کیا کرنی چاہیے ؟ڈاکٹر تانیہ نے ترنت جواب دیا، غزہ پر بمباری کرنا بند کر دیجئے۔ اینکر توقع کررہی تھی کہ شاید وہ کہیں گی ہمیں دواؤں کی ضرورت ہے ہمیں مزید میڈیکل ایڈ کی ضرورت ہے لیکن ڈاکٹر تانیہ نے حق اور سچ بات کی۔ پھر کہا کہ 19 مہینوں سے غزہ کے مظلوموں پر بمباری کرنے والوں کاعالمی عدالتِ انصاف میں احتساب ہونا چاہیے۔ اور ہر اس شخص ہر اس ادارے کا احتساب ہونا چاہیے جو انسانیت کے خلاف سنگین جرم میں سہولت کار رہا۔ وہ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت، ہیومن رائٹس سمیت امن قائم کرنے والے نام نہاد عالمی اداروں کو آڑے ہاتھوں لیتی ہیں۔وہ سوال کرتی ہیں کہ آپ کے نشریاتی ادارے نے غزہ کے ہسپتالوں میں بننے والی ڈاکومینٹریز کو کیوں آن ائیر نہیں کیا اس لیے کہ حقائق منظر عام پر نہ آ جائیں۔ میں سوچتی ہوں کہ 19مہینوں سے جاری اس جنگ کے سہولت کار تو ہم سب ہیں جو خاموش ہیں۔ وہ اہل اختیار بھی جن کی ان آدم خور مغربی بلاک والوں سے معاشی معاہدوں کیلئے گاڑھی چھنتی ہے جن پر کھل کر بات کرنے سے ہمارے پر جلتے ہیں۔پھر یاد آتا ہے حج کا عظیم اجتماع ہونے والا ہے۔ لاکھوں فرزندان اسلام اللہ کے حضور دعائیں مانگ رہے ہیں تو کیا انہیں فلسطین کے مظلوموں کا خیال نہیں آئے گا؟
امام کعبہ کا خطبہ حج عرب ملکوں کے حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجوڑے بغیر کیسے مکمل ہو گا۔ عالم اسلام، امت مسلمہ، مسلم برادر ہڈ یہ سب کیا ہوا؟ اسرائیل کے ہولناک مظالم کی مذمت زبانی کلامی تو بہت ہو چکی انیس مہینے ہونے کوآئے ہیں۔ آدم خور اسرائیل کسی صورت جنگی جنون سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔
ٹرمپ کے پیش کردہ سیز فائر کے معاہدے کو حماس نے ماننے سے انکار کیا ہے کیونکہ اس نے بھگتا ہوا ہے اس سیز فائر میں اگر عالمی ادارے ثالث بنیں اور سیز فائر کی خلاف ورزی کرنے پر اسرائیل کو جواب دہ ہونا پڑے تو ہی حماس جنگ بندی کو تسلیم کرے گا۔ اسرائیل کی پیچھے امریکہ فرانس اور برطانیہ موجود ہیں۔
مسلم ممالک اور تمام انسانیت پرست ملکوں کو اکٹھے ہو کر اس آدم خور مغربی بلاک پر اخلاقی دباؤ ڈالنا چاہیے کسی بھی طرح سے یہودی مارکہ مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اسرائیل کے ساتھ معاشی معاہدوں کو ختم کر کے اسرائیل کو ممکنہ معاشی نقصان کا دباؤ ڈال کر فلسطین میں جنگی سفاکیت و ظلم کو ختم کرنا چاہیے۔ معاشی بائیکاٹ وہ راستہ ہے جو آدم خور اسرائیل کو جھکا سکتا ہے لیکن بکھرے ہوئے مسلم بلاک کو غیر معمولی حکمت عملی پر مبنی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔ مسجد اقصیٰ اور قبلہ اول کے تحفظ کیلئے شہید ہونے والے مسلمان فلسطینیوں کی خاطر مسلم ملک متحد ہوں اور اگر انہیں اس میں کسی مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑے تو اس کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ میں جو کچھ لکھ رہی ہوں یہ ہم للی پوٹینز کیلئے ایک عظیم آدرش ہے کاش کہ کبھی اس کی عملی صورت بھی ظاہر ہو۔
سر دست حقائق تلخ ہیں خبر یہ ہے کہ نو بچوں کی شہادت کے عظیم صدمے سے گزرنے والی فلسطینی ڈاکٹر آلاءالنجار کے ساتھ غم گساری کیلئے اور اسرائیلی بربریت کے خلاف احتجاجی کیمپ لگانے پرسابق سینٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ کو اسلام اباد میں سرکار کے کارندوں نے گرفتار کر لیا ہے۔ اب اس کا ماتم کیسے کیا جائے؟
حیراں ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں