• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کینیڈین عام انتخابات کے نتائج میں امریکی صدر ٹرمپ کی ادغام والی بڑھک بنیادی فیکٹر ضرور ہے۔ مگر کینیڈین عوام کا اس معاملے میں غصہ صرف اس وجہ سے کام آیا کہ سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنی ذاتی غیر مقبولیت کی وجہ سے استعفیٰ دیکر نئے وزیراعظم مارک کارنی کیلئے جگہ خالی کر دی تھی۔ یہ حکمت عملی اتنی کارگر ثابت ہوئی کہ امریکی صدر ٹرمپ کی سوچ کے قریب کینیڈین کنزرویٹو پارٹی شکست کھا گئی اور ٹروڈو کی لبرل پارٹی کو اقتدار کی چوتھی ٹرم ملی گئی۔کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے کی ٹرمپ کی نامعقول سوچ نے کینیڈین عوام کو رجعت پسندی کے خلاف بالکل صحیح غصہ دلایا۔ تاہم اگر ٹروڈو کرسی سے چپکے رہتے تو خود اعتمادی سے مالا مال رجعت پسند اپوزیشن لیڈر پیغ پولیور وزارت عظمی لے اڑتے ۔ مگر ٹروڈو کی ہوشیاری اتنی کارگر ثابت ہوئی کہ اپوزیشن لیڈر پولیور پورے ملک کے انتخابات جیتتے جیتتے اپنی ذاتی سیٹ بھی ہار بیٹھے۔ استعفے کی حکمت عملی یوں کامیاب ہوئی کہ آہستہ آہستہ عوامی رائے بدلنے لگی۔ جس دن ٹروڈو نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا تھا اس روز اسکی لبرل پارٹی عوام میں صرف 16فیصد مقبول تھی ۔ جبکہ چار ماہ بعد پولنگ والے دن اسکی پارٹی 43 فیصد ووٹ سمیٹ کر پارلیمان میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ اب ٹروڈو کی لبرل پارٹی ہی وزیر اعظم مارک کارنی کی قیادت میں حکومت بنائے گی۔یہ حقیقت لا محالہ ہمیں اپنے ملک کی سیاست کی طرف توجہ دلاتی ہے جب وزیر اعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی قرار داد کامیاب ہو گئی تھی۔ تو اگر فوری طور پر عام انتخابات کا اعلان ہو جاتا تو عوامی رائے کا حال یہ تھا کہ شاید PTI کو پنجاب سے قومی اسمبلی کی صرف چند سیٹیں ہی ملتیں۔

اسی لئے شہباز شریف کے وزیر اعظم بنتے ہی میں نے ایک ٹی وی چینل پر کہہ دیا تھا کہ اگر شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کے تیس دن کے اندر عام انتخابات کا اعلان کر دیں گے تو ن لیگ جیت جائے گی مگر ایسا نہ کیا گیا اور ڈیڑھ سالہ حکمرانی کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس دوران پانسا ہی پلٹ گیا۔ عمران خان کا امریکہ مخالف بیانیہ عوام کو اتنا پسند آیا کہ خان ہیرو کی طرح برینڈ نیم بن گیا۔ پارلیمانی سیاسی ٹیکٹکس استعمال کرنے کی بجائے ن لیگ نے کج فہمی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اور پھر فارم 47 کا سہارا مجبوری بن گیا۔ جب وفاقی وزراء ٹی وی مباحثوں میں کہتے ہیں ’ن لیگ نے اپنی سیاست کی بجائے ریاست بچائی ہے‘۔ حقیقت میںوہ فارم 47 کا اعتراف ہی کر رہے ہوتے ہیں ۔ عوام اور میڈیا اچھی طرح آگاہ ہیں کہ’’ریاست بچانے کی شیلڈ‘‘ تو اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ہمیشہ ہی استعمال ہوئی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف بڑھکوں نے ساری دنیا کی سیاست کو متاثر کیا ہے کہ جس لیڈر کے نظریات بھی ٹرمپ کی سوچ کے قریب سمجھے گئے اس کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ جیساکہ آسٹریلین عام انتخابات کا نتیجہ بھی کینیڈین عام انتخابات والا رہا۔ رجعت پسند اپوزیشنیں ایسی ہاری ہیں کہ دونوں ممالک کے اپوزیشن لیڈر اپنی ذاتی سیٹیں بھی کھو بیٹھے ہیں۔ اب آسٹریلیا میں اگلی حکومت بھی وزیر اعظم اپنتھنی البانیز کی قیادت میں لیبر پارٹی ہی بنائے گی۔ ٹرمپ کی رجعت پسندانہ بڑھکوں کیخلاف کینیڈین عوام کا رد عمل دیکھ کر ٹرمپ کی عقل ٹھکانے آگئی ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کیخلاف الیکشن کمپین چلانے والے، عام انتخابات میں فاتح کینیڈین وزیر اعظم مارک کارنی کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی اور اوول آفس میں ہونے والی ملاقات میں وہ الفاظ استعمال کئے اور وہ لب ولہجہ اپنایا کہ فرشتے بھی حیران رہ گئے ۔ کہ مغرور ٹرمپ اتنی نرم ، اپنائیت والی گفتگو بھی کر سکتا ہے! جس کینیڈا کو 51 ویںامریکی ریاست بنانے کے منصو بے چل رہے تھے۔ اب اس کیلئے I Love Canada اور Friendship کے برابری والے الفاظ استعمال کئے۔پاکستانی وقت کے مطابق 7مئی کی صبح بروز بدھ ہونیوالی اس ملاقات میں جب کینیڈین وزیر اعظم نے ٹھوک بجا کر طنزاً کہا کہ کینیڈا بیچنے کیلئے نہیں رکھا ہوا تو ٹرمپ نے Never Never کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ اسی اوول آفس میں اس وقت کے کینیڈین وزیر اعظم ٹروڈو سے ملاقات کے دوران مغرور ٹرمپ نے اسے گورنر آف کینیڈا کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ لیکن اب یہی امریکی ٹرمپ برابری کی دوستی کی درخواست کر رہا ہے۔ ساری ستائشیں اس پارلیمانی سیاسی ٹیکٹک کیلئے جس نے حکمران لبرل پارٹی اور کینیڈا کو عزت دلوادی!

تازہ ترین