• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام ! ’’آئین نو‘‘ میں پہلے ہی واضح کیا گیا ہے اور تواتر سے کہ پاکستان دو قومی نظریے کو حاصل قوت عوام سے وجود میں آیا تھا بعداز قیام مملکت آئین و جمہوریت سے بیزاری کے عشروں میں ہماری 78سالہ تاریخ ایک سے بڑھ کر ایک قومی ڈیزاسٹرز سے بھر گئی آج مان لیا جائے کہ بے آئینی کا گراف اپنی انتہا پر ہے اس سب کی وجوہات کا محور ’’آئین سے روگردانی‘‘ ہی رہا۔

پہلے دستورسازی میں تاخیری حربےبننے پر الیکشن تاریخ کا اعلان آنے پر گورننس سیٹ اپ کے سازشی ماحول نے فروری 57کو ہونے والے الیکشن اور بن گئے متفقہ مانے گئے آئین 56دونوں کو تلپٹ کرکے مارشل لانظام کی بنیاد رکھی گئی۔پہلے مارشل لا میں فرد واحد کے دستور 1962ء کا تڑکا اور منتخب حکومت کے متفقہ آئین 73کی نافذ ہوتے ہی تادم بے توقیری پس منظر میں سیاسی عدم استحکام اس درجے پر تھا کہ تشکیل حکومت اور اس کی گورننس مذاق بن چکی تھی نتیجتاً جس عوام نے ووٹ اور جمہوریت سے پاکستان بنایا تھا انہوں نے ڈگمگاتی حکومتوں کے مقابل مارشل لاکے نفاذ کو بھی غنیمت جانا۔

کچھ فوجی حکومت کے ابتدائی اقدامات سے عوام کو راتوں رات عوامی خدمات کے ریلیف ملنے لگے تو خوشی اور اطمینان کا گراف یکدم اور دنوں ہفتوں میں بلند ہونے لگا ۔مارشل لاء کو مطلب سوکس سپورٹ جتنی فوجی حکومت چاہتی تھی اس سے زیادہ ہی ملنے لگی لیکن قیام پاکستان میں مملکت خداداد میں خلق خدا کی مرضی اور ملک کو قرآن و سنت کی رشدوہدایت کی روشنی میں بنانے و چلانے سے جو روح بشکل قرارداد مقاصد مملکت کی قوت عوام میں وآئین بھر گئی تھی کوئی مارشل یا قدآور سیاسی حکومت اسے اپنی ہوس اقتدار انتظامی طاقت اور کامیابیوں اور عوام کے بنیادی اطمینان کے باوجود ختم نہ کرسکی نظریہ پاکستان کو عوام کا یہ مین ڈیٹ آج بھی مضطرب پاکستان میں پھر بغیر کسی شک وشبہ غالب ہے یہ بار بارٹیسٹ ہو چکا بار بار ہو رہا ہے ۔

سمبڑیال میں فقط ایک خالی صوبائی نشست پر ضمنی انتخاب پر لمبا چوڑا یا اپنا تبصرہ تجزیہ کیا کرنا، کوئی تجزیہ نگار اتنا معتبر تو ہے نہیں کہ اس کی مسلسل اپنے تئیں حق گوئی کے باوجود بھی وہ متنازعہ نہ ہو اصل زور تو خود عوام کے اپنے بیانیوں کا ہے یا ان کا ہے جن کو عوام کی پذیرائی فوری اور بلند درجے پر ملتی ہو ۔یہ بیانیے بھی قوت اخوت عوام کا ذریعہ بن جاتے ہیں ہاں وہ حکومتیں جو متنازعہ ہوتی ہیں اور وہ بھی کسی شک و شبہ کے بغیر اور بلند درجے پر اگر ان کے کسی میثاق معاہدے کے ساتھی یا حکومتی اتحادی بھی غالب شریک حکومت کی بے آئینی اور غیر جمہوری کرتوتوں پر ناقد و نکتہ چین ہو جائیں تو اس سے بڑھ کر عوام کے حکومت مخالف بیانیوں کی طاقت سونے پر سہاگہ ثابت ہوتے اشارہ دیتی ہے کہ برا انجام کہیں قریب ہے ۔

بعداز قیام تاریخ تعمیر پاکستان کے ہر دور میں ہر دور کی متنازعہ حکومت کے خلاف جمہوریت کی بقا اور ا ٓئین کی بالادستی کی عوامی مزاحمت بے آئینی سے مفاہمت پر سکت برابر جاری رہی ہے۔آج کی حدوسکت حکومت برابر نہیں اس سے بڑھ کر اور بہت غالب ہے تاہم متنازعہ حکومتوں کے ہاتھ کچھ اور لگا ہوتا ہے یا ان پر تنی کوئی چھتری کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ عوامی مزاحمت کا غلبہ اس حد کو پار کر نہیں پاتا لیکن اس سے ملکی عدم استحکام میں تسلسل تو رہتا ہے جس سے پھر بہت کچھ منفی ہوتا ہے ۔ایسا تو نہیں کہ متنازعہ حکومتیں عوام اور ملک کے لئے کچھ نہیں کرتیں اپنے تئیں اور حقیقی معنوں میں پورا زور لگاتی ہیں کہ کچھ تو بہتر کریں کسی طرح تو انہیں خوش و مطمئن کریں لیکن ایک تو یہ کرنا محال ہوتا ہے ہو بھی جائے تو اس سے وہ مزاحمت اور اختلاف ختم یاکم نہیں ہوتا جو بے آئینی کی اس حد اور گراف سے نکل جائے جس میں حکومت کی قبولیت اور ہضم ہونے کا فیصد مطلوب سے نیچے ہو جائے جو حالات حاضرہ میں 8فروری کے بعد سے تو بلند ترین ہے۔ سمبڑیال الیکشن کیس میں تو یقیناً یہ یکدم اور بڑھے گا اوپر سے حکومت اتحاد و شریک اور میثاق ساتھی کی انگلیاں اٹھنے سے منطقی انجام کے اور قریب ہونے کا دھڑکا حکومت کو اور کمزور کرے گا ۔

بڑا غم یہ ہے کہ اگرچہ یہ سب کچھ پاکستان کی قومی سیاسی زندگی کا معمول ہے لیکن آج یہ جن حالات حاضرہ اور قدرت کی دفاع وطن کی عظیم تر مہربانی کے ماحول و مواقع میں ہو رہا ہے وہ ہر محب وطن پاکستانی کے لئے مذموم مودی کے پاکستان دشمن عزائم مٹی میں ملنے کی فتح مبین سے سرشار ہونے کے ساتھ مسلسل فکرو اضطراب ہے ۔متنازعہ سیاسی حکومت میں پاکستان کی حقیقی فکر ایسے ہی ثابت ہو سکتی ہے کہ وہ مان لے کہ اسے ایوبی، ضیائی اور مشرف مارشل لائوں کی وہ بڑی یا مطلوب قبولیت بھی بالکل حاصل نہیں جو انہیں پریشان پس منظر کے باعث فوراً حاصل تھی لیکن بہت سے حصولات ان ادوار کی بے آئینی کے باعث ہی آنے والے عشروں میں ریورس ہو گئے جسے ایوبی دور کی ترقی اور مشرفی دور کا پروپیلز لوکل گورنمنٹ سسٹم ،کیونکہ آنے والی حکومتیں بھی بے آئینی پر رہیںاور کافی عرصہ برقرار رہیں ۔وماعلینا الالبلاغ

جنوبی ایشیا: سیاسی جغرافیہ کی تشکیل نو

(گزشتہ سے پیوستہ )

قارئین کرام :گزشتہ آئین نو میں واضح کیا گیا کہ آج کے ملکی حالات حاضرہ کس طرح دسمبر 1978ءسے شروع اور آنے والے عشروں کے بڑے واقعات کے دوررس نتائج بھی ہیں اس لئے جاری موضوع کی حقیقت کو اس 45سالہ تاریخ سے واقفیت و آگہی کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا تو چلئے پھر سے سیریز میں جاری واقعاتی پس منظر سے جڑتے ہیں صدر جمی کارٹر نے اپنا دور ختم ہونے سے قبل جو پاک افغان امریکی پالیسی ، افغانستان پر سوویت جارحیت کے حوالے سے ڈیزائن کرتے پاکستان سے تعلقات بارے یوٹرن لیتے ابتدائی اقدامات کے طور جو پاکستان کو 400ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا اسے جنرل ضیا الحق نے صورتحال کا بہترین فائدہ اٹھاتے گھمبیر صورتحال میں پی نٹ ( مونگ پھلی ) قرار دیتے مسترد کر دیا تھا اور بڑی بے نیازی سے روسی جارحیت کے خلاف اپنی پالیسی زور وشور سے جاری رکھی دو تین ہفتوں بعد کمیونزم کے کٹر مخالف رونالڈ ریگن جمی کارٹر کے مقابل لینڈ سلائیڈوکٹری کے ساتھ اقتدار میں آئے تو روس کو جارحیت کا مکمل سبق سکھانے کے لئے مکمل چارجڑ تھے یہاں تک کہ وہ کیلی فورنیا میں دوران انتخابی مہم ایک میڈیا ٹاک میں اسرائیل کے پاکستان اور عراق کے ایٹمی پروگرام پر حملوں سے متعلق عزائم کی خبروں و خدشات سے متعلق سوال کے جواب میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو پاکستان سے مطلوب تعلقات بڑھانے میں رکاوٹ نہ بننے کا کھل کر اظہار کر گئے جب انہوں نے کہا فارن پالیسی میں میری اولین ترجیح افغانستان سے روسی قابض فوج کا انخلا ہو گا نہ کہ پاکستان و عراق کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کا سفارتی دبائو یہ پاکستان کے لئے پہلے سے موجود ایٹمی پروگرام پر سفارتی دبائو کے مقابل پاکستان سے ر وسی افواج کے انخلا میں تعاون حاصل کرنے کی ترجیح کو واضح کرنا تھا آنے والے سالوں میں ضیا حکومت نے اس کا نتیجہ خیز فائدہ اٹھایا۔

(جاری ہے)

تازہ ترین