• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند ماہ پہلے پاکستانی وزارتِ خارجہ نے ایک افسر کو ڈائریکٹر جنرل افریقہ لگایا، اس کی پوسٹنگ سے پہلے بہت غور کیا گیا اور پھر ہماری وزارتِ خارجہ اس نتیجے پر پہنچی کہ براعظم افریقہ کو سب سے بہتر سمجھنے والے شخص کا نام احمد علی سروہی ہے کیونکہ احمد علی سروہی نے کئی افریقی ممالک میں بطور سفیر شاندار کردار نبھایا ہے، ٹریڈ ڈپلومیسی پر مہارت رکھنے والے اس پاکستانی سفیر نے کئی افریقی ملکوں میں بزنس کے دروازے کھولے، یقیناً اس کا وطن عزیز کو فائدہ ہوا۔ خیر پور سندھ سے تعلق رکھنے والے اس درویش صفت کو ایک ہی کام آتا ہے، پاکستان کا نام کیسے روشن کیا جائے؟ پاکستان کی خدمت کیسے کی جائے؟ دوسرے ملکوں سے پاکستان کے مراسم کیسے بڑھائے جائیں؟ جب احمد علی سروہی کو بطور ڈائریکٹر جنرل افریقہ فرائض سونپے گئے تو انہوں نے بغیر کسی تاخیر کے کام شروع کر دیا اور ایک لائن آف ایکشن بنایا، یہ لائن آف ایکشن اتنا زبردست تھا کہ وزارتِ خارجہ کے کچھ افسران ان سے خائف ہو گئے، انہیں یہ خوف تھا کہ اگر ڈی جی افریقہ نے کام کیا تو پھر ہمیں بھی کام کرنا پڑے گا اور پھر کام کا موازنہ بھی ہو گا، لہٰذا کچھ بھی کیا جائے، احمد علی سروہی کو راستے سے ہٹایا جائے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے سرکاری محکموں میں اکثر لوگ کام نہیں کرتے اور اگر کوئی کرنا چاہے تو اسے روک دیا جاتا ہے، احمد علی سروہی کے خلاف ایسا ہی ہوا، انہیں نہ صرف کام سے روکا گیا بلکہ ڈی جی افریقہ کے منصب ہی سے ہٹا دیا گیا، عہدے سے ہٹنے کے باوجود پاکستان سے محبت کرنے والے اس سفیر نے پورا منصوبہ وزارتِ خارجہ کے حوالے کر دیا کہ اگر مجھ پر کسی کو اعتراض ہے تو یہ کام کوئی اور کر لے، یہ باریش آدمی کی سادگی ہے کہ وہ سمجھ ہی نہ سکا کہ اگر کام کرنا ہوتا تو پھر انہیں عہدے سے کیوں ہٹایا جاتا؟ کام ہی تو روکنا تھا۔افریقی ممالک سے تعلقات کے سلسلے میں یہ تجویز اہم ہے کہ اقتصادی، تعلیمی اور صحت کے میدان میں پاکستان کے مراسم افریقی ممالک سے مضبوط بنائے جائیں۔ پاکستان اور افریقی ممالک کے درمیان گہرے تاریخی تعلقات ہیں، افریقی ممالک میں تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں میں تعاون کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے تین اہم اقدامات کرنا ہونگے۔ پاکستان-افریقہ اقتصادی کونسل (PAEC) تجارت، سرمایہ کاری اور صنعتی تعاون کو فروغ دینا۔. پاکستان-افریقہ ایجوکیشن فورم (PAEF) تعلیمی تعاون اور طلباء کے تبادلے کو بڑھانا۔. پاکستان-افریقہ ہیلتھ الائنس (PAHA)- میڈیکل ٹورازم اور ہیلتھ کیئر پارٹنرشپ کو فروغ دینا۔

یہ اقدامات براعظم افریقہ میں پاکستان کے اقتصادی قدموں کو مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہیں، اس سے ہمیں سفارتی فائدہ بھی ہو گا اور ہم افریقی ممالک سے طویل مدتی دوطرفہ تعلقات کو فروغ بھی دے سکیں گے۔پاکستان افریقہ اکنامک کونسل کے ذریعے ہم درج ذیل مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔

1۔ بر اعظم افریقہ کے ممالک میں پاکستانی برآمدات اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گا۔2۔ اہم افریقی ممالک میں ویلیو ایڈیشن سینٹرز، پاکستان بزنس سینٹرز، اور خصوصی اقتصادی زونز قائم کرنا۔3۔ افریقہ کی بڑھتی ہوئی منڈیوں میں پاکستان کے تجارتی حصہ کو مضبوط بنانا۔اس کی ساخت کو کچھ اس طرح ہونا چاہئے-100معروف پاکستانی کاروباری شخصیات وفاقی اور صوبائی اداروں کی سربراہی کریں۔ وہ متنوع شعبوں سے 900اضافی اراکین کو شریک کریں گے۔ مشترکہ منصوبوں کی سہولت کیلئے افریقی حکومتوں اور نجی شعبوں کیساتھ معاونت بڑھائی جائے۔اس طرح بہت سے مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔1۔ براعظم افریقہ کیلئے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔2۔ افریقی ممالک میں صنعتی اور تجارتی مراکز قائم کئے جا سکتے ہیں۔3۔ مضبوط اقتصادی سفارت کاری کے ساتھ تجارتی اتحاد بنایا جا سکتا ہے۔ بقول فرحت زاہد

پنچھی تو سبھی پیڑ سے اڑنے کو ہیں تیار

اس باغ کی حالت ہے کسی اور طرح کی

(جاری ہے)

تازہ ترین