’’میں خوش ہوں کہ اسرائیلی طیارےمار گرانے والے پائلٹ عرب نہیں بلکہ پاکستانی ہیں‘‘ عرب اسرائیل جنگ 1967ء کے تناظر میں پاکستانی ہوابازوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے یہ مشہور بیان اسرائیلی فضائیہ کے سابق سربراہ اور بعد ازاں اسرائیل کے صدر کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہنے والے ایزر وائزمین سے منسوب ہے۔عالمی سطح پرامریکہ اور مغربی قوتوں کی بھرپور دفاعی حمایت کی بدولت اسرائیل کی فضائیہ کو دنیا کی طاقتور ترین ایئرفورس قرار دیا جاتا ہے، اسرائیل نے عربوں کے ساتھ اپنے ہر تصادم میں اپنی فضائی قوت کا بھرپور مظاہرہ بھی کیا، تاہم1967کی جنگ کے دوران اسرائیل کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب اسے پتا چلا کہ اسکے ناقابلِ تسخیر جنگی جہازمارگرائےگئے ہیں، اسرائیل سمیت مغربی دنیا کیلئے یہ خبر ناقابلِ یقین تھی ، تاہم جب اسرائیلی اعلیٰ قیادت کو پاکستانی ہوابازوں کی مہارت، جرات مندی اور دلیری پر مبنی اس زبردست کارنامے کا معلوم ہوا تو وہ بھی پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے، پاکستان کی مشرق وسطیٰ کیلئے دفاعی حمایت صرف چھ روزہ 1967 کی جنگ تک محدود نہیں رہی بلکہ 1973 کی یومِ کپور جنگ کے دوران بھی پاکستانی ہواباز آگے آگے رہے، یہ امرپاکستان کی سفارتی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس زمانے میں جب مشرق وسطیٰ سویت یونین کے زیر اثر تھا، پاکستان نے امریکہ کی زیرقیادت مغربی کیمپ میں رہتے ہوئے بھی امریکہ و مغرب کے قریبی اتحادی اسرائیل کے خلاف محاذآرائی میں حصہ لیا، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ عرب اسرائیل جنگ میں جتنے بھی اسرائیلی جنگی جہازمار گرائے گئے ،وہ پاکستانی ہوابازوں کےہاتھوں گرے،پاک فضائیہ کے شاہینوںنےمشرق وسطیٰ کے آسمانوں پر بہادری کی داستانیں رقم کرکے نہ صرف عرب اتحادیوں کے دِل جیتے بلکہ اپنی شاندار کارکردگی سے سفارتی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی پائلٹس کو شام، عراق اور اردن سمیت متعددخلیجی ممالک نے اعلیٰ ترین سرکاری اعزازات سے بھی نوازا۔ جغرافیائی طور پر مشرقِ وسطیٰ دنیا کے نقشے پر ایک ایسا خطہ ہےجو گزشتہ ایک صدی سے سرحدی کشیدگی،مسلکی تنازعات ،اندرونی عدم استحکام اور بیرونی جارحیت کا شکار ہے،عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ قربتیں مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی وجوہات کی بنیاد پر پروان چڑھیں لیکن میری نظر میں پاکستان کو عربوں کے قریب لانے میں ہماری کامیاب دفاعی صلاحیتوں کا کلیدی کردار ہے کیونکہ پاک بھارت جنگ 1965ء میں افواجِ پاکستان بالخصوص پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی نے عربوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی تھی۔ سعودی عرب کا شمار مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ممالک میں ہوتا ہے جو پاکستان کا قریبی اتحادی ہے، تاریخی طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے مابین عسکری تعلقات ساٹھ کی دہائی میں قائم ہوئے، ماضی میں جب بھی سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا، پاکستان نے آگے بڑھ کر ہر مشکل وقت میں دفاعی تعاون فراہم کیا،آج بھی دونوں ممالک کےبے شمار فوجی ایک دوسرے کی سرزمین پر خدمات سرانجام دے رہے ہیںاور دونوں ممالک کی افواج السّمصام جیسی مشترکہ فوجی مشقوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتی ہیں، پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سعودی عرب کی سرپرستی میں قائم ہونے والے اسلامی فوجی اتحاد برائے انسداد دہشت گردی کی سربراہی کیلئے سابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مقرر کیا گیا۔ پاکستان کو بحیرہ عرب کی عظیم بحری قوت کا درجہ بھی حاصل ہے اورپاکستانی بحری جہاز مختلف خلیجی ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان کی بندرگاہوں کے باقاعدگی سے دورے کرتے ہیں، اس حوالے سےمذکورہ ممالک نے پاکستان سے عسکری تربیت، دفاعی تعاون اور مشترکہ مشقوں پر مبنی دفاعی معاہدے بھی کررکھے ہیں،پاکستان ان ممالک کے عسکری افسران اور جوانوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں بہتری کیلئے تربیتی کورسز کا انعقاد کرتا ہے اور انکی بیشتر دفاعی ضروریات پاکستان کے توسط سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ پاکستان کو اس حقیقت کابھی اچھی طرح سے ادراک ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی علاقائی سلامتی پاکستان کے ان لاکھوں شہریوں کےمفاد میں ہے جو وہاں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اوربھارت کے مابین حالیہ سرحدی کشیدگی کا معاملہ صرف لڑاکا طیاروں تک محدود نہ رہا بلکہ پاکستان نے الیکٹرانک وارفیئر، ڈرون نیوٹرلائزیشن اور ایئر اسپیس مانیٹرنگ میں جدید صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کو ششدر کردیا، ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے فرانسیسی ساختہ رافیل جہازکو مارگرانے کی خبرمشرق وسطیٰ کے عرب ذرائع ابلاغ میں بھی ٹاپ ہیڈ لائنز کا حصہ بننے میں کامیاب ہوگئی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کامیاب دفاعی حکمت عملی نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی نظر میں ہماری عسکری ساکھ کو بہتر سے بہترین کردیا ہے، خلیجی عوام پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو جدید ڈرون وار فیئر، ایئر ڈیفنس اور سائبر سیکورٹی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا حامل ہے۔میری نظر میں سپرپاور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاحالیہ دورہ مڈل ایسٹ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے، میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر نےمشرق وسطیٰ کے مستقبل کو سعودی عرب سے وابستہ کرنے کا اہم اعلان کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا اہم کھلاڑی ایران اپنی اہمیت کھوچکا ہے، دوسری طرف امریکہ ایران ڈیل نہ ہونےکے باعث خطے پر ایک مرتبہ پھر جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں جسکے منفی اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ حالیہ پاک بھارت سرحدی تصادم نے پاکستان کو سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ وہ تنازعات کے شکار خطے میں دفاعی سفارت کاری کے میدان میں تیزی سے پیش رفت کرے،آج خلیجی ممالک کوبھی یہ باور کرنا چاہیے کہ پاکستان اپنی مضبوط دفاعی صلاحیت کی بدولت نہ صرف اپنی ملکی سرحدوں کی حفاظت یقینی بناسکتا ہے بلکہ پاکستان کا وجود مشرق وسطیٰ کی علاقائی سلامتی کیلئے بھی ناگزیر ہے، میری نظر میں عسکری طور پر ناقابلِ تسخیر پاکستان کا معاشی طور پر مستحکم خلیجی ممالک سے قریبی تعاون خطےمیں بسنے والے کروڑوں افراد کی تقدیر بدل سکتا ہے۔