غزہ میں بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور نوجوانوں کے بےرحمانہ قتل کے دل دہلا دینے والے مناظر، ناکہ بندیاں، خوراک اور ادویات کی بندش ایسے سنگین ترین مظالم کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران امداد لیتے افراد پر بمباری سے 100 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو گئے۔امدادی کارروائیاں پھر معطل ہو گئی ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری مستقل جنگ بندی اور انسانی امداد تک بلارکاوٹ رسائی کے مطالبے پر مشتمل قرار داد ایک مرتبہ پھر ویٹو کر دی ہے۔پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان نے الجزائر کی پیش کردہ قرار داد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔سلامتی کونسل میں نومبر کے بعد یہ پہلی ووٹنگ تھی جب اسرائیل کے اتحادی امریکہ نے ایک اور قرارداد کو ویٹو کیا تھا جس میں لڑائی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔امریکی وزیر خارجہ کےمطابق واشنگٹن نے قرارداد ویٹو کر کے ایک مضبوط پیغام دیا ہے جبکہ پاکستان نے اس اقدام کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔جنگ بندی قرارداد کی ناکامی تاریخ میں تلخ یادگار رہے گی۔اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے اراکین نے قرار داد ویٹو کرنے پر امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ سلامتی کونسل کو ذمہ داری پوری کرنے سے روکا گیا۔تنازع ختم نہ ہونے کی اصل وجہ امریکہ ہے۔غزہ میں شہریوں کو بھوک سے نہیں مرنا چاہیے۔جنگ کو فوری روکنا ہو گا۔امریکہ نے قرارداد ویٹو کر کے صورتحال مزید خراب کر دی ہے۔امریکہ کامسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر ایشو پر اسرائیل کا دفاع کرتا ہے اس کی وجوہات جو بھی ہیں وہ اپنی جگہ لیکن امریکہ کو اپنی پالیسی میں لچک لانی چاہیے کیونکہ اسرائیل کی حد سے زیادہ حمایت امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔پرامن زندگی اور اپنی زمین پر رہنے کا فلسطینیوں کا حق ہے۔