جب میں نے پہلی بار مائیکروفون کے پیچھے کھڑے ہو کر بولنے کی ہمت کی، میری عمر صرف 16 سال تھی۔ ہاتھ کانپ رہے تھے، کاغذ کا ایک مڑا تڑا صفحہ ہاتھ میں تھا، اور زبان پر وہ جملہ تھا جو ہم سب نے بچپن سے سنا ہے: ’’ہمارے پاس خیالات ہیں، لیکن ہمیں کوئی سنتا نہیں!‘‘یہی جملہ میری زندگی کی سمت متعین کرنے والا کمپاس بن گیا۔
پاکستان میں پرورش پانے والے لاکھوں نوجوانوں کی طرح میں نے بھی بارہا سنا، ’’نوجوان ہمارا مستقبل ہیں‘‘۔ یہ بات پرامید ضرور لگتی تھی، لیکن اس میں ایک انجانی شرط چھپی ہوتی:ابھی نہیں۔ فیصلے ہمارے لیے ہوتے تھے، ہمارے ساتھ نہیں۔ اسی سوچ کے خلاف میں نے فیصلہ کیا کہ اب انتظار نہیں، عمل کرنا ہےایسی جگہیں پیدا کرنی ہیں جہاں نوجوانوں کی آواز سنی جائے۔
اپنی ٹین ایج کے اختتام پر میں نے یوتھ جنرل اسمبلی (YGA) کی بنیاد رکھی۔یہ احتجاج نہیں، ایک تجویز تھی۔ میرا یقین تھا کہ نوجوان صرف نعرے نہ لگائیں بلکہ قراردادیں بھی لائیں۔ YGA پاکستان کا پہلا نوجوانوں کا خودمختار فورم بنا، جہاں ہم قومی مسائل پر بحث کرتے، حل پیش کرتے اور تجاویز حکام بالا تک پہنچاتے۔ یہ کامل نہیں تھا، لیکن اس نے ایک بات ضرور ثابت کی:جب نوجوان حاشیے سے مرکز کی طرف آتے ہیں، تو بہت کچھ ممکن ہو جاتا ہے۔
پھر مئی 2024ءمیں ایک ناقابلِ یقین موڑ آیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں، مجھے وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کا فوکل پرسن مقرر کیا گیا۔ یہ تقرری صرف تقریریں کرنے کیلئے نہیں تھی بلکہ اصل ذمہ داری کے ساتھ تھی۔میں پہلے دن دفتر میں آیا تو نہ کوئی ہیڈلائن بنی، نہ کوئی استقبالیہ۔ بس ایک احساس تھاذمہ داری کا۔ میں نے ان ہزاروں طلبہ کو یاد کیا جن سے میں ملا تھا، جو روزگار کیلئے پریشان تھے، سیاست سے مایوس اور خاموشی کے بوجھ تلے دبے ہوئے۔ میری خواہش تھی کہ یہ پروگرام صرف اعلانات کا مجموعہ نہ ہو، بلکہ ایک عملی جواب ہو۔
ایک سال سے بھی کم عرصے میں، ایک شاندار ٹیم کے ساتھ ہم نے پنجاب بھر میں یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹرز کو دوبارہ فعال کیا، جہاں 80 ہزار سے زائد طلبہ کو وظائف، انٹرن شپس، ٹریننگ اور رہنمائی فراہم کی گئی۔ ڈیجیٹل یوتھ حب کا آغاز کیا، جس سے ہزاروں نوجوانوں کو موبائل پر مواقع حاصل ہوئے۔ ہم نے 60 سے زائد یونیورسٹیوں کا دورہ کیابطور افسران نہیں، بلکہ بطور سامعین۔ ہاسٹلز، لائبریریوں، حتیٰ کہ درختوں کے نیچے بیٹھ کر طلبہ کی آرا لیںیہی آرا اب قومی یوتھ پالیسی کی بنیاد بن رہی ہیں، جس پر کام جاری ہے۔لیکن پالیسی صرف کاغذ کا نام نہیں۔ ہم نے میدانِ عمل میں بھی کام کیا۔
گرین یوتھ موومنٹ کے تحت 10 لاکھ سے زائد درخت لگائے، ماحولیاتی شعور، ری سائیکلنگ، اور کچن گارڈننگ کی مہمات چلائیں۔ کھیلوں کے پروگرامز کا آغاز کیاشطرنج سے لے کر ای گیمنگ تک کیونکہ ہر جذبے کو پلیٹ فارم چاہئے۔ ہم نے فائنل ایئر کے طلبہ کو صنعتوں سے جوڑا، ان کے پروجیکٹس کا جائزہ لیابطور ساتھی، نہ کہ افسر۔
سب سے جذباتی لمحہ وہ تھا جب پاکستان کی پہلی نیشنل یوتھ کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ تمام صوبوں، طبقوں، خواتین، خواجہ سراؤں اور اقلیتوں کے نوجوانوں نے وزیراعظم سے حلف لیا۔ یہ کوئی نمائشی عمل نہیں تھایہ مشترکہ قیادت کا آغاز تھا۔
بین الاقوامی سطح پر، میں نے پاکستانی نوجوانوں کی آواز کو ملائیشیا، ساموآ، آذربائیجان، اور برطانیہ جیسے ممالک میں پہنچایا۔ پالیسی، ماحولیات، تعلیم اور شناخت جیسے موضوعات پر بات کی۔ ہم نے 12 سے زائد بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں رابطہ دفاتر قائم کیے۔ کامن ویلتھ کے وزرائے نوجوانان کی میزبانی کی۔ اور حال ہی میں، پاکستان کو کامن ویلتھ ایشیا یوتھ الائنس سیکریٹریٹ کا مستقل میزبان بنایا گیاایک خواب جو کبھی میں نے اپنی نوٹ بک میں لکھا تھا۔
یہ کہنا سچ نہیں ہوگا کہ سب کچھ آسان تھا۔ مجھے بارہا کہا گیا: ’’اپنی حد میں رہو‘‘،’’ تم ابھی بہت چھوٹے ہو‘‘،’’ رفتار کم کرو‘‘۔ لیکن ہر شک کے لمحے میں، مجھے ان نوجوانوں کی آنکھوں میں امید، ہمت، اور عزم دکھائی دیاجو صرف سنجیدگی چاہتے تھے۔
آج جب میں پاکستان کے نوجوانوں کی بات کرتا ہوں، میں انہیں مستقبل نہیں کہتاوہ ہمارا حال ہیں۔ وہ انجینئر جو پہلے ہی تعمیر کر رہے ہیں، وہ لکھاری جو بیانیہ بدل رہے ہیں، وہ کسان جو جدید طریقے اپنا رہے ہیں، وہ ایکٹیوسٹ جو خدمت میں مصروف ہیں، اور وہ کاروباری نوجوان جو خواب پر سب کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں۔
میری پوری جدوجہدYGA سے قومی پالیسی تک، اور عالمی فورمز تک کبھی ذاتی شہرت کا ذریعہ نہیں تھی۔ یہ ایک پیغام تھا: جب نوجوانوں کو ذمہ داری دی جائے، وہ نہ صرف خود اٹھتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔اگر میں ایک سبق اپنے ساتھ لے کر چلا ہوں، تو وہ یہ ہے: اصل تبدیلی بڑی چھلانگوں سے نہیں، بلکہ اس لمحے سے شروع ہوتی ہے جب کوئی آپ کی آواز پر یقین کرتا ہے۔ خوش قسمت تھا کہ کسی نے میرے اندر وہ یقین دیکھا۔ اب میری خواہش ہے کہ میں بھی دوسروں کیلئے وہ یقین بن سکوں۔ہمیں کل کا انتظار نہیں کرنا۔ پاکستان کے نوجوان آج تیار ہیں۔ بس ہمیں انہیں قیادت کرنے دینا ہے۔
(صاحب تحریر وزیراعظم یوتھ پروگرام کے فوکل پرسن ہیں)