• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ملکی داخلی و خارجی امور کے حوالے سے موجود اور ظہور پذیر قومی ضروریات اور عوامی مسائل و مشکلات کی نشاندہی اور ان کا علمی بنیاد پر حل (نالج) اور حکمت ہائے عملی کی تجاویز پیش کرنا ’’آئین نو‘‘ کا ریگولر فیچر ہے۔ اب تو مملکت آئین کی پٹری سے گویا اترگئی ہے۔ اپنے عوام اور اقوام عالم کی نظر میں ثابت شدہ کہ غیر ملکی مداخلت اور متروک ہارس ٹریڈنگ کے مشترکہ زور پررجیم چینج (اپریل22) کے بعد سے پنجاب ، خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹنے اور تحریک عدم اعتماد کی منظوری سے نکلنے والی وفاقی حکومت کی مدت ختم ہونے پر بمطابق آئین پاکستان مطلوب ہر تین انتخابات کے انعقاد سے حکومتی اور الیکشن کمیشن کے انحراف اور مسلسل بے آئینی کے تسلط کے بعد سے ملک جگاڑستان بن کر رہ گیا ہے۔ ریاستی نظام کو مکمل بگاڑو جگاڑ سے چلانے کی مزاحمت نالج بیسڈ بیانیوں سے کرکے کمیونیکیشن سائنس کے اصولوں کے مطابق ان کی ادائیگی تواتر سے جاری رکھی لیکن اسٹیٹس کو اپنی طاقت دکھانے پر تل گیا ۔ اتنے بڑے بحران کے بعد مملکت کا منتخب ایوان اور دو صوبائی اسمبلیاں مکمل طور پر غیر آئینی اور متنازعہ ہوگئیں۔ گویا روایتی مارشل لا کے انعقاد کے بغیر اور متفقہ آئین کی موجودگی میں بھی اسلامی جمہوریہ میں آئین شکنی کی تاریخ کا غیر معمولی کھلواڑ مچا کر متوازی چلتے نظام عدل و انصاف میں بھی ایسا ادارہ جاتی انتظامی انتشار پیدا کرکے عدلیہ سیاسی بنیاد پر تقسیم کر دی گئی ۔ اس ٹیلر میڈ ریاستی نظام اور منقسم عدلیہ میں چیف جسٹس اور بڑے بڑے سینئر ججز تقسیم، عدالت کی (کھلی بھی) اور نادید ہ شعوری کوششوں نے متنازعہ حکومت کو برقرار رکھنے، عوام کو حق ووٹ سے محروم کرکے، اپوزیشن اور سیاسی مخالفین میڈیا اور پختہ ہوگئی جمہوری اقدار کو سیاسی و حکومت نظام جزو معطل بنانے کیلئے سخت متنازعہ فیصلے دیئے جس نے پاکستان کو ہر شعبے کی عالمی رینکنگ میں پسماندگی کی انتہا پر دھکیل دیا۔ ملک میں نظام عدل کے اس جگاڑو بگاڑ پر ہر گلی محلے کی سطح سے لے کر بڑے بڑے ملکی و غیر ملکی ماہرین اور نظام عدل و انصاف کے مانیٹرنگ اداروں کی طرف سے انگلیاں اٹھائی جاتی رہیں۔ پاکستان میں اس عدالتی بدنظمی کی نشاندہی ملکی و بین الاقوامی سطح پر مسلسل اسٹیک ہولڈر کی طرف سے ہوتی رہی۔ پھر بھی آئین پاکستان کو مکمل اپنے ڈھب پر لانے کی جو عوامی مخالف جگاڑی قانون سازی بڑی شدت سے کی جا رہی اس کی انتہائی اور منظم اتمام حجت مکمل ٹیلر میڈ اور (ایٹ لارج) متنازعہ 26ویں ترمیم کو بیچارے آئین میں ٹھونس کر ہی کی گئی ۔اس کی ’’اہمیت‘‘ اس سے زیادہ ہرگز نہیں کہ اس کی بڑھ چڑھ کر منوانے کی تگ و دو جگاڑی نظام کی سرخیل میثاق جمہوریت کے بھی مشترکہ بینی فشری ہیں۔ تاہم یہ 8فروری کے انتخابات میں مکمل مسترد کر دیئے گئے۔اب یہ فارم 47 کے زور پر جگاڑ حکومت کے مشترکہ مقتدر ہیں۔

قارئین کرام! بندہ ناچیز معذرت خواہ عید قربان کے متبرک اور خوشیوں بھرے ماحول میں خاکسار کا یہ جلا کٹا احتجاجی انداز کا کالم آپ کو ڈسٹرب تو ضرور کرے گا لیکن صدمہ یہ ہے کہ جو کچھ ہوا تھا وہ سب بھی پانچ سات دنوں میں ہی کافور ہوگیا جب ملکی سلامتی پر سدا کے پاکستانی دشمن ہمسائے نے اپنی پوری طاقت سے حملہ کر دیا لیکن پاکستان بھرکے عوام اور انکی سب سے بڑی سیاسی پارلیمانی جماعت اور اسیر قائد نے مکمل متنازعہ حکومت سے تمام اختلاف ختم کرتے ان کے چودہ خون معاف کرکے، دفاع پاکستان کیلئے حکومت کے ہمرکاب ہو کر غیر مشروط اس کی یکساں قومی معاون بن گئی۔ بفضل خدا افواج پاکستان خصوصاً پاک فضائیہ کی دشمن پر کاری ضرب سے پاکستان کو علاقے کا عسکری قائد ہونے کا جو مقام دنیا میں تسلیم کیا گیا اس پر ملک میں بدترین تقسیم و انتشار و اضطراب کا تنائو ختم ہو کر پاکستان کی فتح مبین میں تبدیل ہوگیا۔ سوشل میڈیا کہ ’’گستاخی باغی‘‘ بریگیڈ نے ابلاغی محاذ پر پاکستان دشمنی اور مذموم ارادوں سے پاگل ہوئی بھارتی قیادت و میڈیا کے ساتھ جو کیا اور جس وقار سے کیا اسے اس میں اپنی قوت اخوت عوام کی بھرپور تائید و معاونت حاصل رہی۔ سخت خسارے والی بنائی گئی پی ٹی آئی اور قیادت کی ظلم کی حد تک جکڑو پکڑ کی بشکل ڈھیل پیش رفت نظر آئی اور امیدیں بر آئیں کہ سینکڑوں کھوکھلے الزامات کا ملزم خان اب رہا ہو جائے گا۔ خود حکومتی حلقوں سے اس کا یہ ہی واضح تاثر دیاگیا۔ لیکن جس طرح گزشتہ روز سرکاری نمائندے نے آ کر عدالت میں اپنی بے خبری کہ:اسے آج درج مقدمات کے حتمی ثبوتوں کا ریکارڈ پیش کرنا ہے، رات گئے معلوم ہوا اس لئے وہ تیار نہیں اس نے ساری پیش رفت ، بنتی مطلوب سیاسی فضا اور اعتدال و معقولیت پر بم چلا دیا اوربقر عید ملک میں حکومتی و عدالتی کھلواڑ و گٹھ جوڑ کے غلبے کے ماحول میں منائی جارہی ہے۔ پاکستان ایسی عدالتی کارروائیوں سے مسلسل ابتری و اضطراب میں رہنے کا مزید متحمل ہر گز نہیں ہوسکتا۔ فیصلہ ساز اور متعلقہ اکابرین غور فرمائیں۔اس پس منظر میں تحریک و تعمیر پاکستان کی لازمی قومی ضرورت اردو کو بتدریج نظام تعلیم و انتظام و انصرام ذریعہ ابلاغ بنانے کے آئینی لازمے کو اجاگر کرنے کیلئے لاہور کے کثیر الثقافتی مرکز الحمرا آرٹس کونسل میں تین روزہ جشن اردو منایا گیا۔ اس کا انتظام و استحکام پاکستان کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم تنظیم قومی اردو تحریک ایف سی کالج یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبہ اور نوجوانوں کی ایک غیر سرکاری تنظیم YES کے اشتراک سے کیا گیا۔تحریک کے چیئرمین جناب جمیل بھٹی، محترمہ قمر فاطمہ اور ڈاکٹر سلیم ہاشمی اس سہ روزہ جشن اردو کے کتنے ہی پروگرامز کو بڑے سلیقے سے منظم اور کامیاب کرنے میں کئی ہفتوں سے سرگرم تھے۔ ان کی کامیابی قابل قدر و دید رہی۔ واضح رہے قومی تحریک اردو عشروں سے اردو کی آئینی حیثیت کو حکومتوں سے منوانے کیلئے مسلسل قانونی، علمی اور ثقافتی تحریک چلائے ہوئے ہے۔ خاکسار نے جشن کے اختتامی اجلاس کے اپنے صدارتی خطاب میں 21ویں صدی میں اردو کا مستقبل کے موضوع پر عرض کیا:قومی اردو تحریک سپریم کورٹ سے اردو کی آئینی حیثیت کے مطابق اسے تعلیمی اداروں، عدالتی نظام اور انتظامی اداروں میں رائج کرنے سے فیصلہ کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے، لیکن تادم نو آبادیاتی نظام کی انداز و ذہنیت کی اسیر حکومتیں اور افسر شاہی اس میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین