• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمام اہلِ وطن کو عید کی خوشیاں مبارک، عرب شریف والے تو بروز جمعتہ المبارک دو خطبوں کے ساتھ عیدالاضحیٰ مناچکے۔ ہماری روایتی ذہنیت میں خواہ مخواہ دو خطبوں والے تہوار کو منفی طور پر پیش کیاجاتا رہا ہےکہ دو خطبے شاید حکومتِ وقت پر بھاری پڑتے ہیں یا حکومت کیلئےنیک شگون نہیں ہوتے حالانکہ درویش نے اسکی جو اصلیت جانی ہے وہ محض اتنی تھی کہ جب اسلامی خلافت، ملوکیت میں ڈھلی توروایت کے تحت ملوکیت کی حکومت اور انکے امراء کو دینی فرائض کی ادائیگی میں خود امامت و سیادت کرنا پڑتی تھی تب تک تنخواہ دار مولویوں کی نئی اپروچ نہیں ابھری تھی بلکہ سابقوں اوالون میں تو اس نوع کا تخیل تک نہ تھا۔اگرچہ بالفعل دور ملوکیت شرعی بندشوں سے کافی حد تک آزادہوچکا تھا اور یہ اسلئے بھی تھا کہ ان کی دیگر ذمہ داریاں خاصی بڑھ چکی تھیں سو ان حالات میں دو دو خطبے انہیں بھاری گزرتےکہ ابھی صبح تو یہ ذمہ داری ادا کرکے آئے ہیں اب دوپہر کو پھر یہ ساری مشق یا تگ و دو کرنی پڑرہی ہے۔ یہ ہے وہ قدیمی تاریخی نفسیاتی وجہ جسے متاخرین میں ہمارے فقہی لوگوں نے دوسرے رنگ میں لے لیا اور پھر جب وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے حکمران طبقہ خطبۂ و امامت کی ذمہ داریوں سے آزاد ہوگیا تو حکمران طبقے کا یہ بوجھ یا حکومت کیلئے دو خطبات بھاری ہونے کا تصور بھی نابود ہوتا چلا گیا۔ یہ درویش چونکہ اوائل عمری سےکئی دہائیوں تک پکا پیٹھا یا کٹر مولوی رہا ہے مگر افسوس برسوں کی ریاضت سے اسکی مذہبی فکر یا اپروچ جس طرح ارتقاء کرتے ہوئے آگے بڑھی، نکھری یا بہکی، وہ عامۃ المسلمین کی روایتی حاوی فکر مذہبی سے پوری طرح میل نہیں کھاتی۔ اسلئے وہ اس سلسلے میں کچھ لکھنے یا بولنے سے بالعموم احتراز کرتا ہے۔ لہٰذا یہ مولوی جتنا بھی بچ بچا کے چلے کہیں نہ کہیں اسکی مولویت آشکار ہوہی جاتی ہے۔ جسے بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی کالم کی صورت تحریر کردیتاہے۔ شاید ربع صدی قبل کی بات ہے درویش نے اپنے ایک آرٹیکل میں میدان عرفات سے دیے جانیوالے خطبۂ حج پر اپنا جائزہ پیش کیا غالباً تب نا بیناعالم شیخ عبدالعزیز بن باز یہ خطبہ دیاکیاکرتے تھے جو بڑی حد تک روایتی وقدیمی خیالات پر مبنی، رسمی و جذباتی نوعیت کا ہوتا درویش نے اس سلسلے میں تجاویز دیں کہ ایسے خطبات میں عصری تقاضوں کی مناسبت سے بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو راسخ عقائد سے تھوڑا آگے بڑھتے ہوئے روشن خیالی اور حقوق العباد کے تصورات کو اُجاگر کریں تاکہ مسلمان میں تیزی سے پنپتی شدت یا انتہا پسندی میں رکاوٹ پڑے۔ علامہ ساجد میر صاحب کو بھی اس حوالے سے اکسانے کی کوشش کرتا رہا جسکی انہوں نے ہمیشہ مزاحمت کی کیونکہ ہماری روایتی سلفی اپروچ اپنی تمامتر خوبیوں کے باوجود عرب قدامت پسندانہ کلچرسے اوپر اُٹھنے کیلئے تیار نہیں تھی۔درویش کے متذکرہ بالا آرٹیکل شائع ہونے کے چند روز بعد اسکی ملاقات اہلِ حدیث خطیب علامہ شفیق پسروری صاحب سے ہوئی ملتے ہی بولے ”افضال ریحان صاحب! کیا اب آپ خطبۂ حج کے حوالے سے ہمارے سعودی علماء یا امامِ کعبہ کی بھی رہنمائی فرمائیں گے؟“جواب میں صرف یہی کہا کہ حضور میں نے تو محض اپنے احساسات بیان کیے ہیں۔آج جب منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں حجاج کرام کیلئے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی پر استوار سہولیات دیکھیں اور اس نوع کی خبریں پڑھیں کہ حاجی صاحبان کو ان مقدس مقامات پر اے سی والے خیموں کیساتھ ساتھ صوفہ کم بیڈ فراہم کیے گئے ہیں توسعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کیلئے دل سےدعائیں نکلیں۔ سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے شایداپنےسماج میں جوہری تبدیلیاں کرتے ہوئے سورۃ ”العصر“ سے رہنمائی لی ۔ اس حقیقت کا ادراک ان لوگوں کو بخوبی ہوگا جو فقہ و شریعہ میں عصری تقاضوں کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں۔ اسلام کی پنیری عربستان سے ہی پھوٹی اوراس نوع کی روایات بکثرت بیان کی جاتی ہیں کہ یہ دین عربوں سے ہی شروع ہوا اور بالآخر یہیں پر سمٹ کر آجائیگا اب البتہ ایسی روایات کو بیان کرنے سے احتراز کیاجاتا ہے کیونکہ ہمارے روایتی مولوی صاحبان کو عربوں کی جدت پسندی ایک آنکھ نہیں بھاتی ، یہ لوگ اس بات پر نالاں ہیں کہ عرب معاشرے اس طرح راسخ کیوں نہیں ہیں جس طرح یہ متشدد ہیں۔ وہاں فلسطینیوں کے جھنڈے اٹھائے نعرے لگانے اور اسرائیل یاآلِ ابراہیم کے خلاف مرگ کے نعرے لگانے کی اجازت آخر کیوں نہیں؟ چلیں اس مرتبہ انکی یہ خواہش بھی کسی حد تک پوری کردی گئی ہے امام مسجد الحرام شیخ صالح نے دعا فرمائی ہے کہ اے اللہ فلسطینی بھائیوں کی مدد فرما انکو دشمنوں پر غلبہ عطا فرما انکے دشمنوں کو نابود کردے اور مسلم حکمرانوں کو بھلائی کی توفیق نصیب فرما۔ ہمارے کئی پاکستانی احباب کو گلہ ہے کہ مسئلہ کشمیر یا کشمیری مسلمانوں کی کامیابی کیلئے دعا میں کوئی ذکر تک کیوں نہیں کیا گیا ہے ؟ اس کا جواب تو امام الحج ہی دے سکتے ہیں یا شاید وہ اسے سعودی حکومت کی طرح امہ کا مسئلہ نہیں سمجھتے۔ پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت پورے اہتمام سے وہاں پہنچی تو ہوئی ہے اور شنید ہے کہ ان کی کراؤن پرنس سے ملاقات بھی ہوگی۔ ہمارے بلند پرواز نے فرمایا ہے کہ عید اپنوں کیساتھ کی جاتی ہے اور سعودیوں سے بڑھ کر ہمارے اپنے کون ہوسکتے ہیں۔ اسلئے اس نوع کا سوال اٹھانے والے توقع باندھ سکتے ہیں کہ ہمارے یہ لیڈران سعودی قیادت کے سامنے اپنا یہ سوال اُٹھانے کی جسارت ضرورت فرمائینگے اور یہ گزارش بھی کرینگے کہ ہمارے فلسطینی بھائیوں بہنوں کیلئے صرف دعائیں ہی کافی نہیں ہیں انکی عملی مدد کا اہتمام بھی ہونا چاہئے ٹرمپ ناراض ہوتا ہے تو ہوجائے۔ درویش کا اپنے تمام مسلمین کی خدمت میں مفت مشورہ ہے کہ وہ اپنے عرب بھائیوں پر لعن طعن کرنے یا انہیں بدلنے کی خواہش پالنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں اپنی شدت پسندانہ اپروچ کی اصلی والی قربانی دیں۔

تازہ ترین