• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجید امجد نے کتنا ٹھیک لکھا تھا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا

اداس شاعر کا یہ شعر اس روز بہت یاد آیا جب میں ایک گم نام سالگرہ میں شریک ہوا لاہور کا سرسبز باغ جناح اس روز بھی گھنے درختوں اور اپنی تازگی کی شان دکھا رہا تھا۔ باغ کے بیچوں بیچ ایک عوامی کلب کے ایک چھوٹے سے ہال میں درجن بھر لاہوریوں نے ایک سالگرہ کا کیک کاٹا تالیاں بجائیں اور تحسین کے الفاظ ادا کئے ۔جب یہ گمنام سالگرہ ہو رہی تھی تو کلب کے لان، برآمدے اور عمارت میں موجود خوش گپیاں کرنے والوں کو علم تک نہ تھا کہ معاشرے کے ایک سَچے اور سُچے دانشور کی سالگرہ ہے نہ لاہور کی گلیاں سجی تھیں نہ کہیں جھنڈیاں لگی تھیں اور نہ ہی پھولوں کے گلدستے پیش کئے گئے ۔اس روز بھی ٹریفک اسی طرح رواں دواں رہی، افسر اپنی تھام جھام سے شہر میں پھرتے رہے کسی کو نہ فکر تھی نہ علم تھا اور نہ کوئی جانتا تھا کہ ایک غریب شہر اسلم گورداسپوری کی سالگرہ ہے۔ یہ سقراط کے سلسلے کا وہ دانشور ہے جو لوگوں کیلئے سوچتا، ان کیلئے کڑھتا اور لکھتا ہے ۔وہ انسانوں کا خیر خواہ اور انسانیت کی فلاح کا دعویدار ہے وہ سچ کے ذریعے انسانیت کی فلاح ،آزادی اور خوشحالی کا خواہاں ہے۔ گورداسپوری کیلئے ایک درجن افراد نے تالیاں بجائیں۔ غنیمت ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کے شہر میں دس بارہ لوگ تو ایسے تھے جو اسے حرف سپاس پیش کر سکیں وگرنہ سقراط کو زہر پینے سے پہلے ملنے والے صرف چار تھے جبکہ ایتھنز اس کے مخالفوں سے بھرا پڑا تھا ۔آج کی دنیا میں سب سے بڑے مذہب کے بانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آخری عشائیہ (LAST SUPPER) میں صرف 13لوگ موجود تھے۔ کاسمو لوجسٹ فلسفی برونو کو جب 1600میں کلیسا کے قریبی چوک میں آگ کے سپرد کیا گیا تو کہیں سے رونے کی ایک آواز بھی نہیں آئی۔ایسےمیں گورداسپوری کی سالگرہ میں ایک درجن لاہوریوں کی شرکت بھی غنیمت تھی کیونکہ سچے فلسفی کو اس عہد کے لوگ نہ پہچانتے ہیں نہ اسکی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں ۔ہاں البتہ جب وہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو پھر آنے والے زمانے اسے ہمیشہ یاد کرتے ہیں سقراط حضرت عیسیٰؑ اور برونو اپنے زمانے میں تنہا سہی اب کوئی تاریخ ان کے بغیر مکمل ہی نہیں ؟

اسلم گورداسپوری نہ سقراط ہے اور نہ برونو مگر وہ انہی کے راستے کا مسافر ہے اس نے جو سوچا جو کہا اس پر عمل بھی کرکے دکھایا اگر اس نے کچھ سیاسی اور عوامی خواب دیکھے تو پھر ان خوابوں کو روبہ عمل لانے کےلئے وہ جیلوں میں بھی گیا سزائیں بھی کاٹیں اور سینہ تان کر قربانیاں بھی دیں ۔

اسلم گورداسپوری کو تاریخ ،فلسفہ، سیاست اور ادب پر عبور کا درجہ حاصل ہے نابینا شاعر ہومر کی رزمیہ شاعری کے کرداروں سے لیکر سقراط، افلاطون اور ارسطو تک کے الفاظ انہیں ازبر ہیں وہ سیزر سے حضرت عیسیٰ تک کے تاریخی کردار اور سیسرو سے لیکر مارٹن لوتھر کنگ تک کی تقاریر کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ہیگل کا فلسفہ ہو نطشے کے تصورات ہوںیا انقلاب فرانس کے نظریات وہ ان سب کا انسائیکلو پیڈیا ہیں۔تاریخ کے کردار تو ان کے حافظے میں زندہ انسانوں کی طرح محفوظ ہیں۔سیاست کے وہ عملی شناور ہیں بائیں بازو کی سوچ ہو یا جدید دنیا کے معاشی فارمولے ہر ایک موضوع پر وہ مکالمے کےلئے تیار ہوتے ہیں اپنے علم و فضل کے باوجود وہ درویش صفت اور مٹے ہوئے انسان ہیں اصلی دانشور دیکھنا ہو تو ان سے مل لیں ۔

معاشرے طاقت، جہالت اور پسماندگی میں اندھے ہو جائیں تو دانشور انہیں راستہ دکھاتے ہیں دانشور فکر دیتے ہیں اور پھر یہ فکر بیانیے کی شکل میں معاشرے میں پھیلتی ہے۔ تضادستان کے آج کے متضاد بیانیے سوشل میڈیا نے پھیلائے ضرور ہیں بنائے نہیں۔بیانیوں کی بنیاد فلسفے، سوچ اور منطق و دلائل سے ہوتی ہے پاکستان بنتے ہی ایک بیانیہ مسلم لیگ کا تھا کہ اس ملک کو ہر صورت میں چلنا اور پھلنا پھولنا ہے ،ایک بیانیہ مولانا آزاد سمیت قوم پرستوں اور مخالفوں کا تھا کہ یہ ملک اپنے مذہبی اور لسانی تضادات کی وجہ سے چل نہیں سکتا ،اس مخالف بیانیے کی بنیاد قیام پاکستان سے پہلے ہی پڑ گئی تھی ۔اس بیانیے کے حمایتی اور مخالف کردار بدلتے رہے ہیں اس میں ہلکی پھلکی تبدیلیاں ہوتی رہیں نام بدلتے رہے مگر سوچ وہی رہی جو بھی زیر عتاب آیا اسے مقتدرہ بری لگی اسے پاکستان ٹوٹتا ہوا لگا اور اسے مایوسی و ناامیدی نے گھیرا کبھی بایاں بازو اس سوچ کا مقلدتھا پھر پیپلز پارٹی پر افتاد پڑی تو وہ اس کے قائل ہو گئے پھر نون لیگ نے بھی اسی سے فائدہ اٹھایا اور اب اسی بیانیے کے کردار تبدیل کرکے تحریک انصاف نے اسے اپنا لیا ہے ۔اس بیانیے میں مقتدرہ ولن ہے اور عمران خان ہیرو، یہ بیانیہ گوپٹا ہوا ہے مگر اس میں تسلسل ہے تاریخی گواہیاں ہیں سچے واقعات ہیں اس لئے یہ بیانیہ پرانا ہونے کے باوجود مقبول ہے ۔

دوسری طرف پاکستان سے امید وابستہ کرنے والوں کا سرے سے کوئی بیانیہ ہی نہیں بیانیہ کیا ہو کوئی دانشور اور کوئی مفکر ایسا نہیں جو ملک پاکستان کے لئے مستقبل کا بیانیہ دے۔ سرسید ، اقبال اور جناح کا دو قومی نظریہ پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گیا لیکن پاکستان کے اندر تو اب ایک ہی قوم بستی ہے اس کے آگے بڑھنے کا نظریہ، بیانیہ اور لائحہ عمل کیا ہے ؟ ملک کے ناپائیدار ہونے کے بیانیے بہت ہیں وہ مفکر اور فلسفی بھی بہت ہیں جو کبھی اس ملک کو 25سال اور کبھی 50سال دیتے ہیں وہ بھی جو آئے روز مایوسی پھیلاتے ہوئے کبھی یہ صوبہ توڑنے اور کبھی وہ صوبہ توڑنے کی سازش سناتے ہیں وہ بھی موجود ہیں جو دلائل سے اس ملک کو ناکام ریاست، کلائنٹ اسٹیٹ ،غلام ریاست اور پتہ نہیں کس کس القاب سے نوازتے ہیں۔ تجربے نے البتہ ان نام نہاد فلسفیوں کو بار بار غلط ثابت کیا ہے پاکستان اپنی غلطیوں کو تاہیوں،کمزوریوں، غربت اور بدترین گورننس کے باوجود ایٹمی طاقت بھی بنا اور اپنی حفاظت بھی کامیابی سے کرنے پر قادر ہے، اپنے سے پانچ چھ گنا بڑے ملک کے دانت کھٹے کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ہم وہ ہیں جو زندہ ہیں ہمیں مارنے والے خود مر جاتے ہیں ہم زندہ ہونے کے باوجود اپنے زندہ ہونے کا بیانیہ نہیں جانتے ،ہمارا کوئی دانشور امید کی فکر نہیں دیتا ،سوشل میڈیا دانش پھیلاتا ہے دانش پیدا نہیں کرتا، معاشرے کو ملک کے اندر موجود ان گوہر نایاب لوگوں کو ڈھونڈنا چاہئے جو امید دیتے ہیں جو آگے چلنے کی فکر دیتے ہیں جو راہ بھی دکھاتے ہیں اور اس راہ پر قمقمے بھی جلاتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ سوشل میڈیا نہیں ہمارا مسئلہ سَچے اور سُچے دانشور ہیں معاشروں کو سوشل میڈیا نہیں چلاتا فلسفی اور دانشور چلاتے ہیں ۔مگر وہ ہیں کہاں؟

تازہ ترین