• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابقہ یوگوسلاویہ کے صدر جوزف ٹیٹو نے یورپ میں جاری سرد جنگ کے دوران ہمسائیگی کی بنیاد پر درپیش مشکلات کا احاطہ کرتے ہوئے مشہورضرب المثل کو دہرایا تھا کہ آپ اپنے دوست تو چن سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں۔ صدر ٹیٹو کے اس قول میں یہ منطق تھی کہ آپ دوست کو چننے اور چھوڑنے میں اپنے نفع نقصان کو مد نظر رکھ کر انتخاب کر سکتے ہیں جبکہ ہمسایہ برصورت موجود ہوتا ہے اور اسکے شر وخیر سے نبھا کرنا پڑتا ہے۔ آنجہانی ٹیٹو کے یہ الفاظ آج پاکستان کو ہندوستان کی ہمسائیگی سے درپیش چیلنجز کی درست عکاسی کرتے ہیں۔ معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک پاکستان ہمہ وقت ہندوستان کے شر اور اشتعال انگیزیوں سے برسر پیکار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ممالک کے تعلقات پر نظر دوڑائیں تو اس کرہ ارضی پر موجود ہر ملک کسی نہ کسی صورت میں کسی دوسرے ملک کی رقابت سے دوچار ہے۔

یہ رقابت صرف حریفوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ حلیفوں کے درمیان بھی پائی جاتی ہے حتیٰ کہ اتحادی ممالک کے درمیان بھی رقابت کی جھلک دیکھنے کو مل جاتی ہے اور اس رقابت کی وجہ اقتصادی اور تجارتی مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے یا سفارتی میدان میں مقابلہ بازی۔ہر ملک اپنے قومی مفادات کے پیش نظر اس کا شکار ہوتا رہتا ہے اور خودمختار ممالک کے مابین ایسی رقابت کوئی غیرفطری بات نہیں ہوتی۔ لیکن اگر پاکستان اور ہندوستان کی رقابت کو دیکھا جائے تو اس میں ہندوستان کی رقابت اقتصادی اور تجارتی مفادات سے زیادہ عناد اور انا کی اسیر دکھائی دیتی ہے۔ اور ایسی رقابت سے محفوظ رہنا جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ اسکی بنیاد کشمیر کا حل طلب مسئلہ ہے جو ہندوستان اپنی مرضی کے مطابق حل کرنا چاہتا ہے لیکن اگر ہندوستان کے رویہ کا بغور مطالعہ کریں تو یہ چیز واضح اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ عناد کے بغض میں ڈوبی ہوئی ہندوتوا کی پیروکار بی جے پی کی ہندوستانی حکومت پاکستان کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھتی رہتی ہے۔ اور اپنے غیر ذمہ دارانہ اور غیر حقیقت پسندانہ رویہ کی بدولت پورے جنوبی ایشیا کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف ہندوستان اقتصادی ترقی کی خواہشات اور علاقے کی بڑی طاقت بننے کے خواب دیکھتا ہے تو دوسری طرف اسکاعمل ان مقاصد کو حاصل کرنے کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ کیونکہ ہندوستان کی ترقی بھی خطے میں امن اور استحکام سے مشروط ہے۔ جبکہ ہندوستان کے جارحانہ اقدامات جنوبی ایشیا کے عدم استحکام کی جڑ ہیں جس سے پورا خطہ بشمول ہندوستان نقصان اُٹھا رہا ہے۔

گو ہندوستان نے روز اول سے ہی کشمیر کے تنازعہ کے حل میں رکاوٹ بن کر بین الااقوامی قوانین اور اخلاقی اصولوں کی پامالی کا راستہ اپنائے رکھا لیکن موجودہ بی جے پی کی حکومت عناد اور انا پرستی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ مودی حکومت اپنے خارجی محاذ پر ہر ناکامی اور داخلی مشکلات کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر حقیقت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے پاکستان سے تصادم کی فضا بنا دیتی ہے۔ جس کی تازہ مثال حالیہ ہندوستانی جارحیت ہے جسے پاکستان پر مسلط کیا گیا اور جس کے نتیجے میں ہندوستان کو ملکی ہی نہیں عالمی سطح پر بھی ہزیمت اُٹھانی پڑی۔ہندوستان سمجھتا ہے اور اسکی یہ بات صحیح بھی ہے کہ جنوبی ایشیا میں اسکی چوہدراہٹ کی خواہش کے راستے میں پاکستان حائل ہے اور وہ اس خام خیالی کا شکار ہے کہ وہ طاقت کے زور پہ پاکستان کو زیر کر کے خطے میں اپنی مرضی مسلط کرنے کی پوزیشن حاصل کر لے گا۔ہندوستان اپنی انا اور پاکستان سے عناد کے سہارے جس خارجی پالیسی کو لے کر خطے میں آگے بڑھنے کا خواہشمند ہے وہ ایک دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا۔اور اس کا سردست ایک ہی نتیجہ نکلتاہے کہ یہ خطہ پائیدار امن اور استحکام سے محروم رہے گا۔ اور جنوبی ایشیا کے دو ارب سے زیادہ باشندوں کا غربت سے نجات کا سفر طویل ہوتا جائے گا۔ لہذا ہندوستان پاکستان سے ہونے والے حالیہ تصادم سے سبق سیکھتے ہوئے نئے حقائق کی روشنی میں ہمسائیوں سے تعلقات از سرنو ترتیب دے کر تمام تنازعات بشمول کشمیر کا پرامن اور منصفانہ حل تلاش کرے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تویہ اپنے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے امن کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے لیکن ایک جارح سوچ کے حامل ملک کا ہمسایہ ہونے کے ناطے اپنے دفاع سے غفلت سے بچنا ہو گا اور امن حاصل کرنے اور ہندوستانی جارحیت سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی دفاعی قوت کو جدید سے جدیدتر رکھنا ہوگا کیونکہ ہندوستان کوجنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی راہ پہ ڈالنے کے لیے ایک مضبوط پاکستان ناگزیر ہے۔

تازہ ترین