• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانیو، عوام و ’’خواص‘‘۔ ’’حقیقی قوت مملکت‘‘ اور بااختیار و اقتدار، پالیسی و فیصلہ ساز اور عمل درآمد کے کل پرزے بابوئو اور 26ویں ترمیم کے بعد بھی عدلیہ کہلائی جانے والی عدلیہ!، ’’اگر آپ کو قیام پاکستان کے مقاصد، آئین و حلف اور اپنے شہری فرائض و حقوق کا ذرا سا بھی پاس اور توقیر ہے تو خدا را ہوش سنبھالیں، کہ: ہمارے پاکستان کو ہمارے بزرگوں نے طویل علمی کاوشوں، گہری نظریاتی وابستگی اور مسلسل اجتماعی و تنظیمی سیاسی جدوجہد، پھر جان و مال کی بے مثال قربانیوں سے پارٹیشن آف انڈیا کی ان ہونی کو ہونی میں تبدیل کرکے کیوں بنایا تھا؟ مطلوب فقط برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک جدید فلاحی اسلامی جمہوریہ کا قیام تھا۔ اس پر مزید بحث و تمحیص کی اب قطًعی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی، تین سال سے تشکیل پاتے انتہائی پرآشوب حالات حاضرہ اور ان کے تادم فالو اپ نے ناقابل بحث ہوگئے حقائق کی حتمی تصدیق کردی ۔کس نے کردی کب اور کہاں کر دی؟ مقاصد قیام پاکستان کی قوت اخوت پاکستان نے۔ قیام مملکت کے متذکرہ مقصد (جدید فلاحی اسلامی جمہوریہ)کی۔ جدید کا مطلب تمام قومی پالیسیوں اور اطلاق میں جدید علوم کی مکمل معاونت و اختیاریت ہے، فلاحی تمام بنیادی انسانی ضروریات کی آئینی ریاستی ضمانت اور یقینی فراہمی ، پورا نظام ریاست کی بنیاد اسلامی تعلیمات و لازوال و دائمی اصولوں پر ہوگی، اگرچہ اسلامی جمہوریہ نظام ریاست و سیاست کے معمارات اسی بیانیے میں لازمے کے طور سمٹی اور رچی بسی ہے، لیکن جمہوریت کو بطور نظام حکومت و سیاست و اضح کرنا ضروری ہے کہ یہی سارے مدعے کی جڑ اور ناگزیر ہے۔ اس میں جگاڑو بگاڑ نرم ترین الفاظ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بڑا کھلواڑ ، کھلی بے وفائی اور ملک کے لئے یقیناً خسارے کا باعث عشروں سے بنتی رہی ہے ۔ اس کی تمام تر گنجائش جو پہلے بھی بالکل نہیں تھی اب ندارد ، لیکن اب کیا مطلوب ہے؟ یہ بھی مکمل آشکار ہے، عوام ایک بڑے اور تاریخ ساز انقلابی عام انتخاب میں اپنی قوت و اخوت اور قومی جذبات اور حب پاکستان سے مکمل خالص اور محترم عوام عدالت (الیکشن۔24) سے اسکی تصدیق کر چکے، جس پر ملکی جاری نظام بد (مافیا راج) نے ملک گیر آئینی عوامی فیصلے کو مغلوب کردیا، کیسے کردیا؟ اس کی تفصیلات دل خراش ہیں، یہ گائوں گائوں، گلی گلی، گھر گھر لیکن مکمل بے نقاب ہیں، دہرانا اسلئے ضروری نہیں کہ مقصد قوت اخوت عوام کی بیداری سے مکمل آشکار حقائق کی روشنی میں ہی خود ریاست پاکستان اور عوامی سطح تک امور مملکت کی مطلوب مینجمنٹ کی ہے۔ واضح رہے آشکار اور بے نقاب ہونے میں فرق ہے۔ ہمارے کئی سینئر صحافی دوستوں سے بھی نادانستہ غلطی بڑی فریکوئنسی میں ہورہی ہے کہ وہ دونوں الفاظ کا استعمال تو خوب کر رہے ہیں۔ یہ مطلوب اور صحافیوں کی کیپسٹی بلڈنگ کا گراف بلند ہونے کا اہم اشارہ ہے، لیکن یاد رکھا جائے بے نقاب و غیر مطلوب تلخ حقائق اور آشکار مثبت لیکن اب تک پوشیدہ رہنے والی مطلوب و مثبت اصلیت کا ظہور میں آنا ہے‘‘۔سوال یہ ہے کہ جب مثبت و منفی مکمل آشکار و بے نقاب ہے، قوت اخوت عوام سمجھ دار و بیدار ہے، مقاصد واضح اور ان کی روشنی میں آئین پاکستان تیار و موجود و نافذ ہے تو پھر الارم کیوں بج رہا ہے؟ حالات پیچیدہ، پرآشوب اور گھر گھر گائوں گائوں اضطراب کیسا؟ جی ہاں! سوال جتنا متعلقہ ہے جواب اتنا ہی درست اور عیاں ہے۔ سمبڑیال الیکشن سے لے کر الیکشن کمیشن تک جیل مینوئل سے ماورا جیل حکام کی من مانی تک، ظلم و فسطائیت کے آغاز تحلیل سے دنیا بھر کی خبروں و تجزیوں میں غیر معمولی کوریج کے ساتھ پاکستانی عوام کی قوت اخوت عوام کے منتخب لیڈر کی غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی ظالمانہ اسیری کے انداز حکمرانی سے غلبے سے لیکر عملاً عوام کو مظلو م و مغلوب بنائے رکھنے کے نظام بد نے، پاکستان کے بحران سے نکلنے اور راہ راست پر آ کر تیزی سے منزل سے ہمکنار ہونے کے موجود مواقع کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ اسے اسلامی تعلیمات کی روشنی، جدید علوم، ملکی آئین و قانون کی روشنی میں پرکھا جائے تو یہ سب مطلوب و موجود پر مکمل غیر آئینی و غیر مطلوب موروثی اور گٹھ جوڑ سیاسی اتحادی جگاڑ اور سیاسی شعبدوں کا غلبہ ہے۔پاکستان کو بفضل خدا جو مقام و خاص اسلامی جمہوریہ کو جو گزرے ماہ 7 سے 10 مئی تک نصیب میں ملا وہ تو اسلامی جمہوریہ کے مستقل ہوگئے موذی دشمن دشمن ہی نہیں پورے خطے کی عسکری بالادستی کی شکل میں نصیب ہوا وہ تو اس (بھارت) کے مقابل ہمارے اپنے بنائے پیچیدہ و پرآشوب پاکستان لیکن حقیقت میں مملکت خداداد کے تحفظ و دھاک کی عطا کے لئے اللہ سبحان تعالیٰ کی حکمت اور چال ہے اور قیام و دفاع پاکستان شہدا کا ہمیں دیا صدقہ ہے۔ہم نے بطور ریاست مملکت کو جگاڑ و بگاڑ سے محدود ترین ذاتی و گروہی و خاندانی و جماعتی مفادات کیلئے ہی اپنے تئیں قائم رکھنے کے جتن تو ایسے کئے ہیں جو مقاصد پاکستان اور روح آئین سے متصادم ہیں۔

مکمل آشکار و عیاں ہے کہ گورننس کی موجود بےآئینی اس کے اصرار اور عوام کو ریاست سے کاٹ کر بنے مواقع و مقام کو مطلوب و موجود واضح راہ پر ڈالا ہی نہیں جاسکتا۔ فلاح عوام و ناقابل تسخیر پاکستان کا صراط مستقیم، کشمیر و فلسطین کے مسائل کے حل سے دنیا بھر کا یقینی امن و معمول دونوں ہی منسلک ہوگئے۔ جو عظیم کامیابی اپنے دفاع پاکستان کے لئے منتشر و مضطرب قوم کو یکدم ’’بنیان مرصوص‘‘ کی شکل دے کر حاصل کی، وہ عوامی پاکستان کا حقیقی عکاس اور جنوبی ایشیا میں مملکت خدا داد کی سیاسی و عسکری و سفارتی قیادت کی عطائے رب کریم سند ہے۔ مسئلہ کشمیر و فلسطین نے جان و مال کی بیش بہا اور حقیقی تاریخ ساز قربانیوں کے نتیجے کے صلے میں حکمت ہائے قدرت و فطرت نے پاکستان کیلئے جو ماحول و مواقع تراشے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ حاصل مہلت میں ہم فقط موجود’’کی حقیقی‘‘ بحال اورفقط و ’’نفاذ‘‘ موجود اور عوامی نمائندگی سے تعمیر پاکستان کا آغاز کریں۔ ہر دو دیرینہ مسائل فلسطین و کشمیر اب روایتی تنازعات نہیں رہے، انہیں نام نہاد سسکتے انٹرنیشنلزم کے آخری سانسوں کو عالمی امن و استحکام کے بھرپور اور یقینی مواقع سے پاکستان کو جلد سے جلد غلبہ، قومی اتحاد اور بحالی آئین سے ممکن بنا دیا جائے۔ عوامی نمائندگی کی حامل خارجہ پالیسی کا موروثی اور گروہی نظام پر غلبہ بہت ہوگیا، مہلت مکمل لیکن وقت کم تر۔ وماعلینا الالبلاغ۔

تازہ ترین