اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )کم عمری کی شادی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اس کے سنگین نتائج کے پیش نظر، خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں نے ملک بھر میں ایک جامع مہم کا آغاز کر دیا ۔ قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن ام لیلی اظہر نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ سندھ کے بعد اسلام آباد میں بچے بچیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر 18سال مختص کیے جانا خوش آئند ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک بھر میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال مختص کی جائے اس قانون کا قیام اب تک نہ ہونے کا نمایاں سبب سٹیک ہولڈرز کا متحرک اور یکجا نہ ہونے اور ملک بھر میں پدر شاہی نظام کی موجودگی ہے، انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ جب ایک صوبے میں قانون نافذ ہو اور دوسرے میں نہ ہو، تو بعض عناصر بچیوں کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے منتقل کر کے استحصال کرتے ہیں، جو کہ سراسر ظلم اور تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ فہمیدہ اقبال، معروف جینڈر ایکسپرٹ نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 18 فیصد لڑکیاں 18 سال سے پہلے شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں، جبکہ 54 فیصد کم عمر لڑکیاں 18 سال سے پہلے ہی حاملہ ہو جاتی ہیں، جو ان کی اور نومولود کی جان کے لیے خطرہ بننے کی نمایاں وجہ ثابت ہوتی ہے۔ خواتین کے امور کی ماہر ثمن احسن نے کہا کہ سعودی عرب سمیت متعدد مسلمان ممالک میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہی ہے تو پاکستان میں ایسا ہونے میں رکاوٹیں کیوں کر حائل کی جاتی ہیں، خواتین اور بچیوں کے بہتر مستقبل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز، بشمول مذہبی رہنما، قانون ساز، اور سول سوسائٹی کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔