کراچی (ٹی وی رپورٹ) معاشی چیلنجز، زرعی بحران اور بجٹ سے امیدیں اس موضوع پر جیوکی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے ماہرین معیشت نے کہا کہ اگلا سال بھی زرعی پیداوار کے لحاظ سے چیلنجنگ ہو سکتا ہے، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب جتنی محنت اور لگن سے معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں ، شاید ہی اس سے پہلے کسی وزیر خزانہ نے اتنا کام کیا ہو ۔ان کی ان کا وشوں پر وہ ان کے مدا ح ہیں، پاکستان میں ٹیکس ریٹ سب سے زیادہ ہے۔سپر ٹیکس میں کمی کی جائے،معیشت اب بھی ’’آپریشن تھیٹر‘‘میں ہے ، پاکستان کی معیشت اب بھی آئی ایم ایف کے زیرِ نگرانی ہے،حکومت بزنس چھوڑے، اخراجات کم کرے، ٹیکس نیٹ میں وسعت ناگزیر ہے،بجٹ سے کوئی انقلابی قدم متوقع نہیں،تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں نرمی ہونی چاہیے، زراعت جسے معیشت میں پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا ، وہ اب ٹوٹ چکاہے ،خصوصی نشریات میں عارف حبیب ،خاقان نجیب ،ابوزر شاہ ، ثناء توفیق ،اشفاق تولہ ،محمد سہیل،زبیر طفیل ، انجم نثار،علی حسنین ،خرم شہزاد،شمس الاسلام ،ہارون فاروقی ،مہوش سلطان ،زبیر موتی والااور سجاد مصطفٰی سید نے اظہار خیال کیا۔سربراہ عارف حبیب گروپ، عارف حبیب نے کہا کہ زراعت میں گراوٹ، مہنگائی اور صنعت کا بحران گزشتہ سال زرعی شعبہ کمزور رہا، جس کا اثر مجموعی اقتصادی ترقی پر پڑا۔ گندم کی قیمت گرنے سے کسان کی آمدنی کم ہوئی اور نئی فصل کے لیے سرمایہ کاری محدود ہوگئی۔ رواں برس زرعی اجناس کی قیمتوں میں بھی شدید کمی آئی، جس سے کسان کی معیشت مزید متاثر ہوئی۔انہوں نے زور دیا کہ کسانوں کو مراعات دی جائیں تاکہ وہ زیادہ پیداوار کے لیے تیار ہوں۔جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی میکانائزیشن کی جائے۔پیداواری لاگت کم کی جائے تاکہ کسان کو بہتر منافع حاصل ہو۔ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں کہ مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہو۔تعمیراتی سامان بنانے والی انڈسٹریز اپنی پیداواری صلاحیت سے کم پر چل رہی ہیں۔مہنگائی کی وجہ سے عوام کی قوت خرید کم ہوئی جس سے طلب بھی کم ہوئی۔پاکستان میں ٹیکس ریٹ سب سے زیادہ ہے۔سپر ٹیکس میں کمی کی جائے۔ ماہر معیشت، خاقان نجیب نے کہا کہ معیشت اب بھی ’’آپریشن تھیٹر‘‘میں ہے ۔ پاکستان کی معیشت اب بھی آئی ایم ایف کے زیرِ نگرانی ہے اور لارج اسکیل مینوفیکچرنگ و زراعت دونوں شعبے ہدف حاصل نہیں کر سکے۔کپاس کی پیداوار صرف 6-7 ملین بیلز رہی، جب کہ بھارت نے اسے دوگنا کرلیا۔کسان 20 سے 36 فیصد سالانہ سود پر قرض لیتا ہے۔آر اینڈ ڈی کمزور ہے اور وفاقی و صوبائی سطح پر موثر اقدامات کی کمی ہے۔ان کے مطابق، زراعت پر فوکس اور میکانائزیشن کے بغیر پاکستان کی معیشت بہتر نہیں ہوسکتی۔حکومت کا کام گندم کی قیمت طے کرنا نہیں، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کرنا ہے۔گزشتہ سال چاول کی برآمدات بہت زیادہ رہیں۔ریسرچ بتاتی ہے کہ چاول کی پیداوار بہت بہتر ہے۔ چاول کی قیمت کا حکومت تعین نہیں کرتی۔چاول اوپن مارکیٹ کے اصول پر دستیاب ہوتا ہے۔صدر لاہور چیمبر آف کامرس،ابو ذر شاہ نے کہا کہ حکومت بزنس چھوڑے، اخراجات کم کرے۔حکومت وہ کام بھی نہیں کر رہی جو اس کے کرنے کے ہیں۔سرکاری پروجیکٹس نقصان میں جا رہے ہیں۔حکومت کو بزنس سے دور رہنا چاہیے اور پرائیویٹ سیکٹر کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے۔ انہوں نے پٹرول پمپس پر نگرانی، غیر ضروری مشیروں کے اخراج اور معاشی پالیسیوں کی سمت درست کرنے کا مطالبہ کیا۔ریسرچ اینالسٹ، ثناء توفیق نے جیوکہا کہ ٹیکس نیٹ میں وسعت ناگزیر۔زرعی شعبے میں متوقع گروتھ نہیں آئی۔کاروباری لاگت اور شرحِ سود زیادہ ہے۔ ٹیکس نیٹ میں نئی کلاسز کو لانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ صرف کمرشل میٹرز پر ٹیکس لگا کر بھی حکومت سالانہ 430 ارب روپے جمع کرسکتی ہے۔ماہرٹیکس امور، اشفاق تولہ نے کہا کہ بجٹ سے کوئی انقلابی قدم متوقع نہیں۔حکومت بڑے اقدامات نہیں کر رہی۔ درآمدات کھولنے کی خواہش موجود ہے، لیکن ذخائر اجازت نہیں دیتے۔ایف بی آر کے اہداف غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ان کے مطابق، زراعت پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، اور کئی صوبے اسے دینے پر بھی تیار نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بجٹ میں کوئی بڑا اقدام نہیں ہوگا۔حکومت کی معاشی ٹیم چاہ رہی ہے کہ درآمدات کھول دی جائیں۔ہمارے پاس اتنے ذخائر نہیں کہ تجربے کر پائیں۔ایف بی آر کاوصولوں کا جو ہدف رکھا جارہا ہے وہ ناقابل حصول لگتا ہے۔ تاجر270 ارب روپے دینے پر راضی تھے۔زرعی شعبے میں ٹیکس وصولی نہ ہونے کے برابر ہے۔بند کمرے میں بیٹھ کر پروگرامز بنا لئے جاتے ہیں جو اب نہیں چلے گا۔