قارئین کرام، سمجھیں! ایران پاکستان کا بھی قریب ترین ہمسایہ ہے ۔ پاک ایران سرحد کی طوالت 909 کلومیٹر ہے۔ یوں بھی سمجھا جائے کہ سلامتی کے حوالے سے کسی مخصوص صورتحال میں پاکستان اور کبھی ایران ایک دوسرے کے بیک یارڈ (عقبی صحن) سمجھے جاتے ہیں اور ہر دو ممالک کی حکومتوں اور عوام کو اس کا واضح احساس ہوتا ہے۔ اس جغرافیائی اشتراک کے علاوہ پاکستان اور ایران کے مذہب و مسلک، زبان و ثقافت و تجارت ، حکومتوں اور عوام کا رشتہ بہت گہرا اور تاریخی ہے۔ دونوں ملکوں کے فلاسفر، مذہبی رہنما، سیاسی و سماجی اسکالر ، ادیب و شعرا ہر دو ملکوں میں جانے جاتے ہیں اور ان کا علمی اور ابلاغی اثراب کئی صدیوں کی ہمہ پہلو تاریخ ہے۔ قریبی گزری صدیوں میں ہزار ہا ایران خاندان آ کر متحدہ ہندوستان میں آباد ہوئے، یہ اب پاکستان و بھارت و بنگلہ دیش کی مسلم آبادیوں میں مدغم ہیں۔ ایران ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے قیام پاکستان پر اسے اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی بھرپورتائید و حمایت کی تھی۔ پاکستان کے ساتھ ایران کے اتنے گہرے تاریخی و فکری تعلقات کے پس منظر میں آج دنیا بھرمیں جنگی ماحول کے تناظر میں 13جون شروع ہونے اور اس دن کا سورج طلوع ہونے سے پہلے کے چند گھنٹوں کی گہری رات میں غیر معمولی حملہ اسرائیلی اور امریکی دھمکیوں اور انتباہ کے بعد ہوا ہے۔ اس کی ملتی جلتی تفصیلات انٹرنیشنل میڈیا اور ایرانی و اسرائیلی ذرائع ابلاغ سے آ رہی ہیں۔ یہ عالمی امن خصوصاً مشرق وسطیٰ کے امن و استحکام کیلئے بڑےاور عملی خسارے کا خطرہ ہے۔ اپنے قیام (1948) سے لے کر تادم اسرائیل پاکستان کیلئے حالات حاضرہ کے حوالے سے بھرپور امریکی تائید و حمایت سے یہ بڑا حملہ، ہمیں جاری بھارتی رویے کے باعث درپیش سلامتی کے بدستور خطرے کے باعث مشرقی سرحدوں پر مسلسل الرٹ رکھے ہوئے ہے۔ جسے ایران پر اسرائیل کے غیر معمولی حملے نے اور چینلجنگ بنادیا ہےاگرچہ بفضل خدا و اتحاد پاکستان اور ہماری مجموعی عسکری خصوصاً فضائیہ کی بھارت سے محدود جنگ میں ثابت شدہ اعلیٰ و شہرہ آفاق صلاحیت اور کارکردگی آج عالمی و علاقائی سیاست میں پاکستانی پوزیشن پورے خطے کیلئے قابل رشک ہے لیکن بھارتی حکومتی ابلاغ اور میڈیا کی طرف سے دنیا اور پاکستان کو یقین دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی کہ آپریشن سندور جاری ہے۔ اب تو بڑی مار کھا کر بھی جنگی جنون میں مبتلا وزیر اعظم مودی نے پرائم منسٹر ہائوس میں سندور کا پودا لگا کر اپنے تئیں ہمیں پیغام دیا ہے کہ ’’ آپریشن سندور مانند درخت پلتا بڑھتا رہے گا‘‘ گویا وہ پاکستان پر سلامتی کے خطرے کی تلوار کو ہی مستقل لٹکانے کا ہی پیغام نہیں دے رہے بلکہ اپنے تئیں ہمیں اس ابتلا میں مستقل رکھنے کے مذموم ارادے کا اظہار کیا گیا ہے۔ الگ ہے کہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مودی نے پی ایم ہائوس کے سبزہ زار میں سندور کا جو پودا لگایا ہے اس کے پتے جلے کٹے تھے۔ مودی صاحب نے تو فوٹیج کے مطابق پودا ٹیڑھا ہی لگا دیا ہے۔ مودی اسکے تین اطراف مٹی زیادہ ڈال گئے اور ایک طرف سے شائدجھکا ہی رہ گیا۔ ان کی پاکستان پر سلامتی کے خطرے کو بڑھانے کی یہ تیاری بھی رافیل کیس ہی ثابت ہوگی۔ جی ہاں! تو بات ہو رہی ہے ایران پر اسرائیلی حملے کی، واضح کرنا ضروری ہے کہ ایران کے پاکستان کا عقبی صحن ہونے کا احساس ہمیں ہو رہا تھا۔ پاکستان کی عملی صورتحال یقیناً اس اعتبار سے حساس ہی ہے کہ بھارتی کھلے ارادوں کے مطابق پاکستانی جملہ تینوں اقسام کی سرحدات بری، فضائی، بحری پر بھارتی حملے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ پاکستانی فقط خبروں کے مطابق ہی نہیں ٹھوس شہادتوں کے مطابق یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری شہری آبادیوں پر حالیہ بھارتی حملے سے قبل یہ خبریں آ ہی نہیں گئی تھیں کہ اسرائیلی ڈرونز اور اسی سے متعلق اسرائیلی مشیر مقبوضہ کشمیر میں موجود ہیں۔ اب تو ادھم پور ایئر بیس پر پاکستانی جوابی حملے میں ان کے زخمی ہونے کی خبر بھی حامد میر نے دی ہے۔ پھر لاہور اور دوسرے مقامات پر اسرائیلی ڈرونز آ کر گرے ہیں۔ بھارتی فوج کو حاصل اسرائیلی ماہرین کی پاکستان کی سرحدات سے قریب ترین موجود گی کی خبریں اور کئی ذرائع سے آتی رہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی پیلٹ گن سےپرامن کشمیری احتجاجی ریلیوں پر کھلے عام فائرنگ سے ہزار ہا نوجوانوں کے چہرے مسخ اور نابینا ہوگئے۔ اسرائیل کے اس لیول پر پروو انڈیا اور اینٹی پاکستان ہونے کے واضح ریکارڈ کے باوجود ہم اسرائیل، ایران جنگ میں فریق بننے کی تو پوزیشن میں نہیں آ سکتے، تاہم پاکستان کے ہی سلامتی اور جملہ مفادات کے حوالوں اور ایران سے ممکنہ اور جائز ممکنہ تعاون میں پاکستان کی کوئی نہ کوئی شکل بننا صرف ایران سے ہمدردی اور دوستی کا حق ادا کرنے والی بات نہ ہوگی بلکہ یہ اب پاکستان کی موجودہ پوزیشن میں فریضہ بن گیا ہے۔ واضح رہے مائنس بھارت اب پورا جنوبی ایشیائی اور جنوب مغربی ایشیائی خطے (پاکستان ایران، افغانستان اور خلیج) کامجموعی زاویہ نگاہ بھی پاکستان بابت ہر دو خطوں کو سمجھ میں آگیا ہے۔ سو پاکستان کو ایران کو اسرائیلی جاری حملوں کو محدود ومختصر اور ختم اور کم سے کم کرنے کی عالمی و علاقائی سیاسی و سفارتی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہماری وزارت خارجہ اور سول سوسائٹی کی متعلقہ تنظیمیں اور ادارے اس حوالےسے ایران کے اس چیلنج کو اپنی کاوشوں اور صلاحیتوں سے شیئرڈ بنائیں۔ خصوصاً سول آبادی کے تحفظ اور انکی روزمرہ زندگی میں حملوں سےپیدا ہونے والی مشکلات کو کم سے کم اور مینج کرنے کے حوالے سے۔اگرچہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ فریق نہ بننے کی وضاحت کر رہا ہے لیکن وہ اسرائیلی معاونت کی کھلی سیاسی و سفارتی اور اسلحہ کی فراہمی میں تو کوئی جھجک محسوس نہیں کر رہا۔ ایران پر تو ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جن شکوک و شبہات اور الزامات سے مسلسل عشروں سے جو سفارتی دبائو ڈالا جا رہا ہے اسے ثابت کئے بغیر اور اس پر سفارتی مذاکرات کی حتمی تکمیل کو پورا کئے بغیر ہی اس پر حملہ کر دیا گیا ہے اس صورت حال سے صدر ٹرمپ پاک بھارت محدود جنگ سے نکلتے ایٹمی جنگ کے خطرات کو اپنی امن اپیل سے روکنے میں کامیابی کا جو کریڈٹ تواتر سے لے رہے ہیں وہ بہت حد تک متاثر ہوگیا اور جاری رہنے کی صورت میں مزید ہوسکتا ہے۔ اس کا احساس امریکی صدارتی حلقوں میں دلانے کے لئے بھی پرامن دنیا، عالمی امن کی کاز کے حوالے سے پابند ہے۔ لیکن پاکستان نے اپنی مخصوص جغرافیائی حیثیت بڑے خطرات کو کم تر رکھنے اور کرنے کے تجربات کے حوالے سے ایران کی بلاجھجک مدد کرنا بنتی ہے لیکن یہ کام دونوں کے مشترکہ اہم دوستوں کے حوالے سے اور انہیں اعتماد میں لے کر اسلام آباد کو کرنا ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔